مغرب کی حکومتیں اور ان کے حکمران ۔۔۔۔انسانیت اور جمہوریت کے جھوٹے دعویدار اور علمبردار ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ا ن سے بڑا انسانیت کا دشمن اس وقت روئے زمین پر کوئی نہیں ۔یہ وہ درندے ہیں جن کے منہ کو انسانوں کا اور خاص کر مسلمانوں کا خون لگا ہوا ہے ۔یہ درندے دنیا میں کہیں نہ کہیں مسلمانوں کا خون بہاتے رہتے ہیں اور اس خون سے اپنی پیاس بجھاتے رہتے ہیں جس کی تازہ اور بدترین مثال غزہ ہے جس پر اسرائیل کی جارحیت کا ایک سال مکمل ہوچکا ہے ۔ایک سال کا ایک ایک لمحہ غزہ کے مسلمانوں کیلئے قیامت بن کر گزرا ہے ۔ ایک سال میں کوئی دن ایسا نہیں آیا جو غزہ کے مسلمانوں نے آرام اور سکون سے گزارا ہو اور کوئی رات ایسی نہیں گزری جس میں وہ چین کی نیند سوئے ہوں ۔

واضح رہے کہ غزہ کی پٹی دنیا کا سب سے زیادہ گنجان آ باد علاقہ تھا جو365 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ساحلی پٹی پر مشتمل 24 لاکھ افراد کا مسکن ہے، جہاں ایک مربع کلومیٹر رقبے میں ساڑھے پانچ ہزار افراد رہائش پذیر تھے ۔دنیا کا سب سے گنجان آباد یہ علاقہ اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اسرائیل نے غزہ کی محدود جغرافیے کی حامل زیر محاصرہ گنجان آبادی پر جتنا بارود ایک سال کے دوران برسایا ، اس کی مثال دونوں عالمی جنگوں میں بھی نہیں ملتی ہے۔اسرائیل غزہ کی چھوٹی سی پٹی پر اب تک 85 ہزار ٹن سے بھی زیادہ بارود بموں کی شکل میں برسا چکا ہے۔ غزہ میں تاریخ انسانی کی بدترین تباہی ہوئی ہے جس کا اندازہ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے کیا جاسکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کے طیاروں ، ٹینکوں اور توپوں نے بمباری سے جو تباہی مچائی ، رہائشی عمارتیں ، تعلیمی ادارے ، ہسپتال ، مساجد ، دکانیں اور مارکیٹیں جتنے بڑے پیمانے پر تباہ ہوئی ہیں ان کا ملبہ اٹھانے پر 15 سال لگیں جائیں گے۔ جب کہ تباہ شدہ عمارتوں کی جگہ تعمیر نو پر 80 سال لگیں گے۔ آزاد ذرائع کے مطابق 2 لاکھ سے زائد فلسطینی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ زخموں سے چور ہیں، 20 لاکھ افراد ایسے ہیں جو مکمل طور پر گھر سے بے گھر اور در سے بے در ہوچکے ہیں ۔ان بیچاروں کے پاس معمولی چھت اور کھانے پینے کا معمولی سامان بھی دستیاب نہیں ہے ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے شب و روز کیسے گزرتے ہوں گے ؟

’ہیومن رائٹس واچ‘ کی روپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ میں قائم انڈونیشیا ہسپتال، ترک ہسپتال اور القدس ہسپتال کو کئی بار نشانہ بنایا۔ ہر روز اوسطاً طبی عملے کے دو ارکان یا ڈاکٹروں کو موت کے گھاٹ اتارتاجاتا رہا ۔ اب تک کم سے کم 752 ڈاکٹر و طبی عملے کے ارکان قتل اور 782 زخمی ہوئے ہیں جبکہ 128 زیر حراست ہیں۔اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر کے فراہم کردہ ڈیٹا اور اوپن سٹریٹ میپ کے جغرافیائی ڈیٹا بیس کے مطابق غزہ کی 80فیصد مساجد مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ ہوچکی ہیں ۔سات اکتوبر 2023 سے 31 دسمبر 2023 کے دوران 117 مساجد بشمول تاریخی گرینڈ مسجد عمری اور دو گرجا گھر بھی اسرائیلی بمباری سے تباہ ہوئے۔ غزہ کے کل قابل کاشت رقبے کا 68 فیصد حصہ [102مربع کلومیٹر] اسرائیلی بمباری اور فوجی نقل وحرکت سے تباہ ہو چکا ہے۔ شمالی غزہ کی 78 فیصد زرعی زمین جبکہ رفح میں 57 فیصد زرعی رقبہ ناقابل استعمال ہو چکا ہے۔اسرائیلی بمباری سے غزہ میں سڑکوں کا 68 فیصد ]119 کلومیٹر] نیٹ ورک تباہ ہو گیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیٹلائیٹ سینٹر کی جانب سے 18 اگست 2024 کو جاری کردہ ابتدائی ڈیٹا رپورٹ کے مطابق غزہ میں تباہ ہونے والی شاہراؤں میں 415 کلومیٹر سڑکیں مکمل تباہ جبکہ 1440 کلومیٹر پر محیط سڑکیں جزوی طور پر تباہ ہوئی ہیں، ہسپتالوں کے محاصروں اور حملوں کے دوران اسرائیلی فوج ہزاروں فلسطینیوں کو 200سے زائد اجتماعی قبروں میں پھینک چکی ہے۔غزہ جنگ کے دوران 173 صحافی بھی اسرائیلی فوج کی بمباری، ڈرون حملوں اور فائرنگ کا نشانہ بن کر زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔جبکہ لاتعداد صحافی پابند سلاسل ہیں ۔ غزہ میں سب سے بری حالت بچوں کی ہے ۔ بچے جو کہ کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔ قوموں کی تعمیر وترقی اور نشوونما کا دارومدار بچوں پر ہوتا ہے ۔ جب کسی قوم کے بچے موت کے گھاٹ اتار دیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے وہ قوم صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے ۔ صہیونی اسی فارمولے پر عمل پیرا ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی درندے فلسطینی بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے اور جانوروں کی طرح ذبح کررہے ہیں ۔اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ( یونیسیف ) کی رپورٹ انتہائی لرزہ خیز ، دلوں کو ہلادینے تڑپا دینے اور خون کے آنسو رولادینے والی ہے ۔ یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر کا کہنا ہے کہ یہ جنگ جو اسرائیل نے غزہ پر مسلط کررکھی ہے اس میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہورہا ہے ۔اس جنگ میں روزانہ ہی فلسطینی بچے اسرائیلی فوج کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ ایک سال کے دوران ہر روز تقریباََ 40 بچے شہید کیے گئے ہیں ۔ غزہ کا مختصر سا خطہ اپنے اندر موجود لاکھوں بچوں کے لئے گویا زمین پرجہنم بنادیا گیا ہے۔ صورت حال بہتر ہونے کی بجائے دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 ء کو اسرائیلی حملے کے بعد اب تک 14,100 سے زائد بچے موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ غزہ میں روزانہ 35 سے 40 کے درمیان بچے اور بچیاں شہید کئے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں لوگ مرنے کے بعد ملبے کے نیچے دب کر بھی لاپتہ ہوگئے ہیں۔ جو لوگ روزانہ فضائی حملوں اور فوجی کارروائیوں میں بچ جاتے ہیں انہیں اکثر خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچوں کو بار بار تشدد اور بار بار انخلا کے احکامات سے بے گھر کیا جاتا ہے یہاں تک کہ محرومیت نے پورے غزہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ بچے اور ان کے اہلخانہ کہاں جائیں؟ وہ سکولوں اور پناہ گاہوں میں محفوظ نہیں ہیں، وہ ہسپتالوں میں محفوظ نہیں ہیں اور زیادہ بھیڑ والے کیمپوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

ایک طرف غزہ میں اسرائیل کی بدترین جارحیت جاری ہے تو دوسری طرف دنیا کے نقشے پر57اسلامی ممالک موجود ہیں جو ہر قسم کے وسائل ،قدرتی ذخائر اور معدنیات سے مالال ہیں ۔57اسلامی ممالک کی ا فواج کی تعداد لاکھوں پر مشتمل ہے جو کہ ہر قسم کے جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے بلکہ ان میں پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بھی شامل ہے اس کے باوجود غزہ کے مسلمان بے یارومددگار ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ تمام اسلامی ممالک سے صرف سعودی عرب ہی قدمے دامے درمے سخنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کررہا ہے ۔

اب چاہئے تو یہ کہ دیگر اسلامی دنیا بھی غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ان کی جانی مالی اور عسکری مدد کرتی لیکن اسلامی دنیا خاموش تماشائی ہے جبکہ اسرائیلی درندے فلسطینی مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑے ہیں جس طرح بھوکے گدھ اپنے شکار پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ اس وقت غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے ۔۔۔۔وہ جنگ نہیں بلکہ یکطرفہ قتل عام ہے ۔ اسلامی ممالک نے غزہ میں بڑھکتی ہوئی آگ کو نہ بجھایا تو عین ممکن ہے کہ آگ کے یہ بڑھکتے ہوئے شعلے ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں ۔
اے چشم اشکبار ذرا دیکھ تو سہی
یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں تیرا ہی گھر نہ ہو

Shares: