لاہور:اسرائیل سےترکی کےخفیہ،سفارتی اورتجارتی تعلقات کی عجب کہانی:عرب امارات اسرائیل تعلقات پرترکی کامنافقانہ رویہ کیوں‌؟تاریخی واقعات اورحقائق کے مطابق یہ بات کھل کرسامنے آگئی ہے کہ عرب امارات کی اسرائیل سے ڈیل کی مخالفت کرنےوالے ترکی نے خود اسرائیل سے خفیہ اورسفارتی تعلقات قائم کررکھے ہیں ،

 

 

اس حوالے سے جو حقائق سامنے آئے ہیں اس کے مطابق 1949 میں ترکی نے یہودی ریاست کو تسلیم کرلیا تھ ، پھراس کے بعد کسی نہ کسی صورت میں ترکی اور اسرائیل نے سفارتی تعلقات کی کچھ شکل برقرار رکھی ہے۔ اسرائیل میں ترکی کا پہلا سفارتی مشن 7 جنوری 1950 کوباضابطہ طور پر گیا تھا ، اور پہلے ترک چیف آف مشن سیف اللہ ایسن نے اسرائیل کے صدرچیم ویزمان کو اپنی اسناد پیش کیں ۔

 

اسرائیلی حکام نے ترکی اوراسرائیل کے درمیان تعلقات کے بارے میں انکشاف کیا ہے کہ سن 1958 میں ، اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بین گورین اور ترکی کے وزیر اعظم عدنان مانڈیرس نے ایک خفیہ طور پر ملاقات کی جس میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات، انٹلیجنس معلومات کے تبادلے اور فوجی امداد شامل تھی ۔

 

 

1967 میں عرب اسرائیل کی چھ دن کی جنگ پراسرائیل سے کچھ ناراض سا ہوگیا اوراسرائیل کی مذمت بھی کردی اور اسرائیل کے فلسطینی علاقوں سے دستبرداری کا مطالبہ کیا ، لیکن اس نے اسرائیل کو "جارحیت پسند ریاست” کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس شق کے حق میں رائے دہی سے پرہیز کیا۔ مراکش کے شہر رباط میں تنظیم اسلامی کانفرنس کے اجلاس میں ترکی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی قرارداد کی مخالفت کی

 

مارچ 1992 میں ترکی کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی سفارتی تعلقات کو ایک بار پھر سفیر کی سطح پرلانے کی کوشش کی گئی اور ایک ترک سفیر نے اسرائیل کے صدر چیم ہرزوگ کو ٹیلیفون میں اپنی اسناد پیش کیں

 

دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانے کی ان کوششوں کے نتیجے میں اسرائیل نے ترکی میں دو سفارتی مشن قائم کئےجن میں سے ایک دارالحکومت انقرہ میں واقع ایک سفارت خانہ اور ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں اس کا قونصل خانہ قائم ہوا ۔

2002ء کے الیکشن میں طیب اردگان کی پارٹی کی جیت اور اردگان کے وزیراعظم بننے کے بعدترکی اور اسرائیل کے تعلقات نے نیا رخ موڑا۔

بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہےکہ ترک صدر طیب اردگان اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے اس لیے بھی راضی تھے کیونکہ طیب اردوگان یہ سمجھتے تھے کہ ترکی میں فوجی بغاوتوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے ، اس لیے وہ فوجی بغاوتوں سے بچنے کے لیے اسرائیل کی کے ساتھ اچھے تعلقات بناکراس مشکل سے نکلنا چاہتے تھے ،

طیب اردگان نے باوجود اسرائیل سے نفرت کے 2005ء میں اسرائیل کا دورہ کیا اور اسرائیلی حکومت کو برابری کی سطح پر تعلقات رکھنےاور مشرق وسطیٰ کو پرامن بنانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی دعوت دی ،ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے مشرق وسطی کے امن ثالث کی حیثیت سے خدمات انجام دینے اور یہودی ریاست کے ساتھ تجارتی اور فوجی تعلقات استوار کرنے کی پیش کش کی اورپھراسی تناظرمیں اسرائیل کا دورہ کیا۔ ایردوان نے وزیر اعظم ایریل شیرون اور صدر موشے کاتسو سے ملاقات کی اور ید وشم پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔

اسرائیلی حکام کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ سن 2006 کے اوائل میں اسرائیلی وزارت خارجہ نے ترکی کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو "بہترین” قرار دیا تھا۔ نومبر 2007 میں اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے ترکی کے صدر عبداللہ گل سے ملاقات کی اور ترکی کی عظیم الشان قومی اسمبلی سے خطاب کیا اس خطاب میں طیب اردگان بھی موجود تھے اور تالیاں بجارہے تھے

چنانچہ 2009ـ2008 میں موسم سرما میں ترکی کی جانب سے اسرائیل کے آپریشن کاسٹ لیڈ کی مذمت کے بعد دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے تھے

ترکی نے اسرائیل کو مشترکہ اناطولیہ ایگل فوجی مشق میں حصہ لینے سے روک دیا ، جس کے جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے یہ کہتے ہوئے ترکی پرسخت تنقید کی اورکہا کہ ترکی اب شام اوراسرائیل کے درمیان ایماندار دلال نہیں بن سکتا”

غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف طیب اردگان نے بھرپور احتجاج کیا۔اس سے پہلے 2004ء میں حماس کے بانی شیخ احمد یسین ؒ کے قتل پر بھی اردگان حکومت نے اسرائیل سے سخت احتجاج کیا تھا۔ادھر 2009میں ترک ٹی وی چینل پر اسرائیلی مظالم کے خلاف پروگرامز نشر ہونے پر اسرائیلی حکومت نے ترکی سے سخت احتجاج کیا۔ یوں ترکی اور اسرائیل تعلقات میں تناؤ بڑھتا رہا۔

 

چنانچہ 2009میں ڈیوس عالمی اقتصادی فورم پر طیب اردگان نے اسرائیلی مظالم کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور اسرائیل کے جنگی جرائم کو ہٹلر کی طرح قراردیا۔2010ء میں ترک حکومت نے حماس کے لیڈر خالد مشعل کو باقاعدہ ترکی بلاکر نئے سرے سے تعلقات کا آغاز کیا،جس پر اسرائیل نے ترکی سے سخت احتجاج کیا۔

یہی وجہ ہے کہ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ عیجب معاملہ ہے کہ ایردوآن مجھے "ہٹلر” کا نام دیتے ہیں اور اسرائیل سے تجارت بھی مضبوط بنا رہے ہیں

 

 

بعدازاں 31مئی 2010 کو ترکی نے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے لیے فریڈم فلوٹیلانامی جہاز پرامدادی سامان بھیجا،جس پر اسرائیلی فوجیوں نے حملہ کیا اور جہاز کے عملے میں شامل 10 ترکوں کو قتل کردیا۔اس حملے کی وجہ سے بالآخرطیب اردگان نے پہلی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ 60 سال سے قائم تعلقات منقطع کردیے۔اس کے بعد اردگان مسلسل اسرائیلی مظالم کے خلاف بین الاقوامی فورمز پر آوا ز اٹھاتے رہے۔2013 میں اقوام متحدہ سے غزہ پرا سرائیلی مظالم رکوانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ "صہیونیت انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہے”۔

 

اس طرح اسرائیل کوبین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔چنانچہ 2013میں اسرائیلی حکومت نے باقاعدہ دنیا کے سامنے فریڈم فلوٹیلاحملے پر ترکی سےمعافی مانگی اور تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ترک حکومت نے معافی قبول کرتے ہوئے نقصان کے ازالے کا مطالبہ کیا۔تین سال بعد اسرائیلی حکومت نے نقصان کے ازالے پر حامی بھری اور فریڈم فلوٹیلا حملے میں مرنے والوں کو 200 ملین ڈالر ہرجانہ اداکرنے کا وعدہ کیا۔

 

 

یوں جون 2016ء میں باقاعدہ طور پر اسرائیل اورترکی دونوں نے دوبارہ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا۔چند دن پہلے دونوں ملکوں نے اپنے اپنے سفیر بھی منتخب کردیے۔اسرائیل میں لگنے والی آگ بجھانے کے لیے بھی اردگان نے انسانیت کے ناتے اسرائیل کی مدد کی جس پر اسرائیلی صدر نے اردگان کا شکریہ ادا کیا۔

اردگان حکومت کے مطابق تین شرائط پر ترکی نے اسرائیل سے تعلقات بحال کیے ہیں۔فریڈم فلوٹیلا حملے پر معافی اور نقصان کا ازالہ کیا جائے گا،غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ اورفلسطین بالخصوص غزہ میں امدادی اور فلاحی کاموں کی ترکی کو اجازت ہوگی۔اسرائیلی حکومت کے مطابق ان تین مطالبات کے باوجودیہ معاہدہ اسرائیل کے لیے سود مند ہے،کیوں کہ اسرائیلی اپنی قدرتی گیس ترکی کے ذریعے یورپ تک پہچنا سکے گا، ترکی اسرائیل کے خلاف بین الاقومی فورمز پر خاموش رہے گااور حماس کے قبضے میں قید اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کے لیے ترکی مدد کرے گا۔

 

 

ترکی باوجو داسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے فلسطینیوں کا حامی ہے۔یہی وجہ ہے کہ 22نومبر 2016 کو طیب اردگان نے پہلی مرتبہ اسرائیلی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا،اس میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحالی کے باوجودفلسطینیوں کی نمائندہ جماعت حماس کو ایک سیاسی حقیقت تسلیم کیا اور ان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی حامی بھری۔اردگان کے اس بیان پر اسرائیل میں مظاہرے بھی ہوئے اور اسرائیلی عوام اور پارلیمنٹ کے بعض اراکین نے ترکی سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔

اگرچہ ترکی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں 1958 سے ایک ساتھ کام کر رہی ہیں ، لیکن ترکی اور اسرائیل کے مابین 1990 کی دہائی کے اوائل میں موساد اور ترکی کی قومی انٹلیجنس آرگنائزیشن (ایم آئی ٹی) کے مابین معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد اسٹریٹجک انٹلیجنس تعاون کو اہمیت حاصل ہوئی ہے۔

اس اہم معاہدے میں یہ بھی طئے تھا کہ ہمسایہ ممالک میں مشنوں کو انجام دینے کے دوران موساد ترکی کو بفر زون کے طور پر استعمال کرے گا تاکہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی حفاظت اور حفاظت کو یقینی بنائے۔

ان معاہدوں کے نتیجے میں موساد کے ممبران سرحدوں سے تجاوزات اور سیکیورٹی کے طریقہ کاروں کے بغیر اپنے جاسوس سازوسامان کے ساتھ ترکی میں داخل ہوسکتے تھے اور پاسپورٹ اور کسٹم چیکس سے بھی گریز کرتے تھے۔ یہ سیکیورٹی اور انٹیلیجنس تعلقات اکتوبر 2012 سے سخت تناؤ کا شکار ہیں ، جب یہ انکشاف ہوا کہ ترکی نے ایران کو کام کرنے والے 10 ایرانی جاسوسوں کے نام لیک کردیئے تھے۔

دوسری طرف ان خفیہ اورسفارتی تعلقات رکھنے کے باوجود ترکی نے عرب امارات کی اسرائیل سے ڈیل پرسخت تنقید کی ہے اوردھمکی دی ہے کہ وہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرسکتا ہے

ترکی نے اپنے علاقائی حریف متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پر امریکا کی جانب سے اعلان کردہ امن معاہدے میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس پر فلسطین کاز کے ساتھ غداری کرنے کا الزام عائد کردیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کی رپورٹ کے مطابق ترک وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ یو اے ای کو فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے یا ‘فلسطین کے لیے اہم معاملات پر مراعات دینے’ کا کوئی اختیار نہیں۔

وہیں الجزیرہ نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ ترکی کی جانب سے کہا گیا کہ تاریخ اور خطے کے لوگوں کا ضمیر ‘اسے نہیں بھولے گا اور متحدہ عرب امارات کے اس منافقانہ رویے’ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

 

 

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا عندیہ دے دیا۔

انادولو نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رجب طیب اردوان نے استنبول میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ہم متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات معطل کرنے یا وہاں سے اپنا سفیر واپس بلانے کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔’

خیال رہے کہ اس معاہدے نے متحدہ عرب امارات کو خلیج عرب کا پہلا اور مصر اور اردن کے بعد تیسرا عرب ملک بنا دیا ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات ہیں۔

Shares: