جب بھارتی پارلیمنٹ سے محض دو کلومیٹر دور مسلم کش فسادیوں نے رپورٹر کو زبردستی اپنا ساتھ دینے پر مجبور کیا ۔ تحریر: احمد علی عباسی

0
86

ایک زمانہ تھا جب چن چن کر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانا ہندتوا کے غنڈوں کا معمول بن چکا تھا مگر پھر زمانہ بدلا تو انہی غنڈوں نے جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذہنی تشدد کا راستہ اختیار کرلیا،مسلمانوں کے خلاف نت نئے نعرے تشکیل دیے گئے اور معاشی طور پر غیر مستحکم بنانے کے منصوبے بھی تیار کیے جانے لگے ۔ انہی نعروں میں سے ایک انتہائی خطرناک نعرہ آر ایس ایس نے ہی تشکیل دیا جس کو گلی گلی پھیلایا جانے لگا اور وہ نعرہ یہ تھا”جب ملے (مسلمان) کا ٹے جائیں گے ۔ ۔ ۔ تو رام رام چلائیں گے” ۔ پہلے پہل تو یہ نعرہ بھارت کے کوچوں اور بازاروں میں استعمال کیا جاتا رہا مگر اتوار کے روز تو یہ اور اس جیسے کئی اور نفرت انگیز نعرے بھارت کے دارلحکومت دہلی میں موجود پارلیمنٹ سے محض دو کلومیٹر کی مسافت پر بلند کیے گئے ۔ اس مارچ کا اہتمام ویسے تو بی جے پی دہلی کی جانب سے انگریز دور کے فرسودہ قوانین کے خاتمے کے لیے تھا مگر نجانے کیوں اس میں بھی نشانہ مسلمانوں کو ہی بنایا گیا ۔ نیشنل دستک نامی چینل کے رپورٹر "انمول پریتم” جب جنتر منتر نامی مقام پر ہونے والے اس احتجاج کی کوریج کرنے کے لیے پہنچے تو انتہا پسندوں نے ان کا بھی گھیراو کرلیا اور ان کو "جے شری رام”کے نعرے لگانے پر مجبور کرنے لگے ۔ انمول نے بی جے پی کے غنڈوں میں گھرِ جانے کے باوجود نعرہ لگانے سے صاف انکار کردیا ، جس پر مشتعل ہجوم نے ان کوزردوکوب کرنا شروع کردیا ۔ پریتم کا کہنا تھا کہ بھاری تعداد میں پولیس کی موجودگی کے باوجود ملک کے دارلحکومت میں مسلمانوں کے خلاف نعرے لگنا انتہائی فکر انگیز بات ہے، ملک میں پچھلے کئی سال سے ایک ہندو اکثریت والی جماعت کی حکومت ہے اس کے باوجود ہندووں کے اس احتجاج پر میرے کئی سوالات ہیں ۔ پریتم نے پھر کچھ مظاہرین سے ہندوستان میں غربت کے خاتمے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی کوششوں کے بارے میں پوچھا ۔ پریتم نے مزید بتایا کہ، جب انہوں نے ہجوم سے پوچھا کے وزیر اعظم نے خود غریبوں کو کھانا کب دینا ہے؟ تو ہجوم مشتعل ہو گیا اور لوگ اس پر چیخنے لگے اور پوچھنے لگے کہ کیا وہ "جہادی چینل” سے ہے ۔ اس دوران گروپ کا ایک آدمی آیا اور مظاہرین سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ بات نہ کریں کیونکہ ہم اپنے چینل پر ان کی بات نہیں دکھائیں گے ۔ پورے گروپ نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہم ایک "جہادی چینل” ہیں ۔
پریتم نے کہا کہ اس نے اعتراض کیا ، میں نے کہا کہ میں آپ کی بات ٹیلی ویژن پر دکھاوں گا، براہ کرم ہم سے بات کریں ۔ اس کے بعد گروپ نے مجھے گھیر لیا اور مجھ سے "جئے شری رام”اور "وندے ماترم”کے نعرے لگانے کو کہا ۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ’’وندے ماترم‘‘ اور ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کا نعرہ لگایا لیکن ’’جے شری رام‘‘ کہنے سے انکار کر دیا کیونکہ، ان کی ذاتی رائے میں یہ ایک سیاسی نعرہ ہے ۔ یہاں پر ایک بات قابل ِ زکر ہے کہ اس احتجاج میں ابھی پڑھے لکھے لوگ شامل تھے جو بھارت کے دارلحکومت میں رہتے ہیں ، انہوں نے مل کر مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت کا اظہار کیا ہے تو اتر پردیش یا بھارت کے کسی اور دور دراز کے علاقے میں مسلمانوں کا کیا حال ہوتا ہوگا،جہاں نا ہی تو میڈیا کوریج دیتا ہے اور نا ہی لوگ ذیادہ پڑھے لکھے ہیں ۔ یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کے اگر بھارت کے ہندووں نے اس جنونی جماعت کو نا روکا تو جو سلسلہ مسلمانوں کے استحصال سے شروع ہوا تھا وہ ہندووں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۔ اب کوئی یہ سمجھتا ہے کہ و ہ مسلمان نا ہونے کی وجہ سے ان دہشتگردوں سے خود کو بچا پائے گا تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ ظلم کا ساتھ دینے والے یا خاموش رہنے والے کی سزا شاید ظالم کے ہاتھوں ہی لکھی ہوتی ہے ۔

Leave a reply