جب فلسطینی بچہ سب کچھ کھو جانے کے بعد ننھے بھائی کو لیے اکیلا ہی انجانی منزل کو چل دیا
تحریر ، الیاس حامد
باغی ٹی وی : غزہ میں اسرائیل نے انسانیت کو شرما دینے والا جو کھیل کھیلا ہے اور مسلسل کھیل رہا ہے ، اس شیطانیت سے جو اثرات سامنے آر ہے ہیں یہ انتہائی بھیانک ہیں ان حالات میں دل کو چیر دینےوالی اور اندوہناک داستانیں سامنے آ رہی ہیں . اس طرح کی داستانوں میں ایک تصویری داستان آپ کے سامنے ہے جس میں ایک فلسطینی بچہ بے سرو سامانی کے عالم میں ایک لکڑی کی ریڑھی پر اپنے ننھے سے بھائی کو لٹا کر لے جا رہا ہے ، اس کے ساتھ ہی اس کی کل جمع پونجی ہے جو اب بچی ہے .
اسرائیل کے فائٹر طیاروں اور میزائلوں نے اس کے گھر پر ایسی قیامت ڈھائی ہے .اس کے ماما بابا، بہن بھائی اور دیگر افراد نہ جانے کس قیامت سے گزرے ہیں کہ اب وہ اس کے ساتھ نہیں ہیں . یہ اکیلا ہی اپنے اس ننھے سے بھائی کو انجانی منزل کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے . شائد کہ اس کو کوئی پناہ گاہ میسر ہو جائے اور گوشہ عافیت مل جائے .جہاں اسرائیل کے طیاروں کی قیامت خیزی سے ان کا ننھا سا بھائی بچ سکے . اس امید پر اپنے چھوٹے سے کاندھوں پر بھاری بوجھ لیے یہ فلسطینی بچہ اندھیری منزل کی جانب رواں دواں ہے .
یہ علم نہیں کہ اس کو کوئی ایسا ٹھکانہ یا پناہ گا مل سکے جہاں وہ قیامت صغریٰ برپا نہ ہو .
ننھے بچے کی یہ ایک کہانی نہیں ہے نہ جانے سینکڑوں ہزاروں فلسطینی بچے اسی طرحاسرائیل کی بربریت اور ظلم کے مارے کسی خاص پناہ گاہ اور محفوظ ٹھانے کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں.
یہ تصویر اقوام عالم ، مہذب دنیا اور سو کالڈ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے کافی ہے کہ یا تو یہ انسانی حقوق کا ڈرامہ رچانا بند کردیںیا اس بچے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اس کو اس حالت تک پہنچانے والے کو انجام تک پہنچا دیں ، لیکن تجربات نے ثابت کیا ہے کہ یہ بچہ چونکہ مسلم سوسائٹی سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا تعلق فلسطین سے ہے ، کاش کہ ایسے مناظر مغربی ، عسیائی یا یہودی سوسائٹی سے پیش آتے تو دیکھناکیسے حقوق انسانی ، حقوق اطفال اور ہر طرح کے حقوق جاگ اٹھتے لیکن معذرت کے ساتھ یہ تو مسلم بچہ ہے اور اس کو کیونکر جینےکا حق بھی حاصل ہو…؟