بردی قربابائیف، جدید ترکمانی ادب کے بانی

0
57
burdi

پیدائش:15 مارچ 1894ء
تیجن
وفات:03 مارچ 1974ء
اشک آباد
شہریت:سلطنت روس
سوویت اتحاد
جماعت:اشتمالی جماعت سوویت اتحاد
رکن:اکیڈمی آف سائنس سویت یونین
زبان:ترکمن زبان
اعزازات:
آرڈر آف لینن
اعزاز اکتوبر انقلاب

بردی مرادووچ قربابائیف ترکمانستان کے عوامی ادیب، ترکمانی ادب کے بانی، شاعر، ناول نگار، ڈراما نویس، صحافی اور ترکمانی ادب کے مسلم الثبوت استاد ہیں۔
حالاتِ زندگی
۔۔۔۔۔۔
بردی قربابائیف 03 مارچ 1894ء میں ترکمانستان میں تیجین کے پاس ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔
ان کی زندگی کا راستہ بھی وہی تھا جو ان کی قوم کے لاکھوں ہنرمند سپوتوں کا تھا جنھوں عظیم اکتوبر نے زندگی کی چوٹی پر پہنچایا۔ خانہ جنگی کے برسوں میں وہ ماورائے کیسپین محاذ پر فوجی اور سیاسی کارکن تھے اور اس کے بعد انھوں نے ترکمانیہ میں سوویت اقتدار کی تعمیر کی۔
بردی قربابائیف نے لینن گراد اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبۂ شرقیات میں تعلیم حاصل کی۔ 1924ء میں بردی قربابائیف پیشہ ور ادیب بن گئے۔ ان کا رزمیہ ناول فیصلہ کن قدم، ناول اور طویل افسانے نیبت داغ، سفید سونے کے دیس کا اَئی سلطان، پھٹ پڑنے والا بند، پانی کی بوند-سونے کا ریزہ، شمالی بعید کی روشنی” وغیرہ عظیم اکتوبر کے اور عوام کی جدوجہد کے فنکارانہ وقائع ہیں۔ ان کی بہت سی نظموں میں آئیلار کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ نظم حب الوطنی کی جنگ عظیم کے برسوں میں عوام کے لازوال کارناموں کے بارے میں ہے۔ انہیں بجا طور پر جدید ترکمانی ادب کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے جن کی تخلیقات روس کی ساری قوموں اور بہت سے بیرونی مملک کے لوگوں کی دسترس میں ہیں اور وہ انہیں قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔[5]آپ نے گوگول، لیرمونتوف، پشکن اور ٹالسٹائی کے تراجم ترکمانی زبان میں کیے۔ 1944ء – 1950ء تک وہ نے ترکمانستان کے ادیبوں کی انجمن کے صدر رہے۔
تخلیقات
۔۔۔۔۔۔
ناول اور افسانے
۔۔۔۔۔۔
فیصلہ کن قدم
نیبت داغ
سفید سونے کے دیس کا اَئی سلطان
پھٹ پڑنے والا بند
پانی کی بوند-سونے کا ریزہ
شمالی بعید کی روشنی
نظمیں
۔۔۔۔۔
جرات میندوں کا گیت
آئیلار
اداروں سے وابستگی
۔۔۔۔۔۔
صدر ترکمانستان کے ادیبوں کی انجمن
(1944ء -1950ء)
رکن ترکمانی سائنس اکادمی
نائب سپریم سوویت برائے ترکمانستان
رکن مرکزی کمیٹی برائے 21، 22 اور
23 ویں کانگریس برائے کمیونسٹ پارٹی بیلاروس
رکن کمیٹی برائے اسٹالن انعام
اعزازات
۔۔۔۔۔۔
بردی قربابائیف کو 1948ء میں سوویت ریاستی اسٹالن انعام 1951ء میں سوویت یونین کا ریاستی انعام، سوویت یونین کا لینن انعام اور سوشلست محنت کے ہیرو کا انعام دیا گیا۔ اس کے علاوہ ترکمانی ادب کے سلسلے میں آپ کی گرانقدر خدمات کے صلہ میں 1970ء میں مختوم قلی انعام بھی دیا گیا۔
وفات
۔۔۔۔۔۔
بردی قربابائیف اشک آباد، ترکمانستان میں 80 سال کی عمر میں 03 مارچ 1974ء کو انتقال کر گئے۔

Leave a reply