"جدید دور کے جدید کاروباری مسائل ”

نادیہ بٹ

موجودہ دور کی تجارت میں شیئرز کی تجارت ایک نیا اضافہ ہے اس لئے قدیم فقہ کی کتب میں اس کے بارے میں احکام اور تفصیل معدوم ہیں پہلے زمانے میں جو "شراکت” کی جاتی تھی وہ چند افراد کے مابین ہوتی تھی جن کو پارٹنر شپ کہا جاتا ہے مگر پچھلی دو تین صدیوں سے شراکت داری کا ایک نیا انداز سامنے آیا جو جائنٹ اسٹاک کمپنی کہلایا اس کے باعث کاروباری دنیا میں جدت آئی اور اس کے حصص میں شیئرز کے کاروبار کا نیا مسئلہ پیدا ہوا۔اس کی بنیاد پر دنیا بھر میں اسٹاک مارکیٹیں سر گرم عمل ہیں،جن میں کروڑوں بلکہ اربوں کا لین دین ہوتا ہے۔
"آئیں ہم علماء کی آراء میں دیکھتے ہیں کہ کن اصولوں اور شرائط کے ساتھ شئیرز خریدنا جائز ہے۔۔۔۔۔۔!!”

?? حصص کے معنی۔۔۔
کمپنی کے شئیرز کو اردو میں "حصص” عربی میں "سھم” کہتے ہیں

اگر کسی شخص کو اسٹاک مارکیٹ سے شئیرز خریدنے ہو تو اسے مندرجہ ذیل چار شرائط کا لحاظ رکھنا ہوگا ۔۔۔۔۔؟

پہلی شرط…….!!!

یہ کہ وہ کمپنی حرام کاروبار مثلا سودی بینک،سود اور قمار پر مبنی انشورنس کمپنی،شراب کا کاروبار یا دیگر حرام کاموں کی کمپنی وغیرہ میں ملوث نہ ہو۔

دوسری شرط…….!!

یہ کہ اس کمپنی کے تمام اثاثہ جات اور املاک سیال اثاثہ جات(liquie asssets)یعنی نقد رقم کی صورت میں نہ ہوں’بلکہ اس کمپنی نے کچھ فکسڈ اثاثے (fixed Assets)حاصل کر لیے ہوں
مثلا عمارت تعمیر کر لی ہو یا ارضی خرید لی ہو۔لہذا اگر اس کمپنی کا کوئی فکسڈ اثاثہ وجود میں نہیں آیا،بلکہ اسکے تمام اثاثے ابھی (Liquid )نقد رقم کی صورت میں ہیں۔تو اس صورت میں اس کمپنی کے شئیرز کو فیس ویلیو face value سے کم یا زیادہ میں فروحت کرنا جائز نہیں’بلکہ برابر برابر خریدنا ضروری ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں دس روپے کا حصہ ( شیئر) دس روپے کی کی نمائندگی کر رہا ہے’بلکل ویسے ہی جیسے دس روپے کا bond دس روپے ہی کی نمائندگی کرتا یے’لہذا جب دس روپے کا شیئر دس روپے کی ہی نمائندگی کر رہا ہے تو اس شیئر کو گیارہ یا نو روپے میں خریدو فروخت کرنا جائز نہیں،
الغرض دوسری شرط کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک کمپنی کے منجمد اثاثے وجود میں نہ آئیں اسوقت تک اس کے شئیرز کو کمی بیشی پر فروحت کرنا ناجائز ہے

تیسری شرط….!!

اکثر کمپنیوں کی بنیادی کاروبار حرام تو نہیں ہیں مثلا ٹیکسٹائل آٹو موبائل کمپنیوں وغیرہ۔
لیکن یہ کمپنیاں کسی نہ کسی طرح سودی کاروبار میں ملوث ہوتی ہیں یعنی یا تو یہ کمپنیاں فنڈز بڑھانے کے لیے بینک سے سود پر قرض لیتی ہیں اور اس قرض پر پھر اپنا کام چلاتی ہیں یا پھر وہ زائد اور فاضل رکھ ان سودی اکاؤنٹ میں رکھواتی ہیں اور اس پر وہ بینک سے سود حاصل کرتی ہیں ہیں وہ سود بھی ان کی آمدنی کا ایک حصہ ہوتا ہے لہذا ایسی کمپنی کے شیئرز خریدنا سودی کاروبار میں ملوث ہونا ہے

ایسی کمپنیوں کے بارے میں عصر حاضر کے علماء کرام کی آراء مختلف ہیں ایک گروہ کے نزدیک چونکہ یہ کمپنیاں حرام کاموں میں ملوث ہے لہٰذا ایک مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اس کمپنی کے ساتھ حرام کام میں حصہ دار بنے
*دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کمپنیوں میں یہ نقص موجود ہے مگر اس کے باوجود اگر کسی کمپنی کا بنیادی کاروبار مجموعی طور پر حلال ہے تو پھر مشروط طور پر کمپنی کے شیئرز لینے کی گنجائش ہے

یعنی وہ شیئر ہولڈر اس کمپنی کے اندر سودی کاروبار کے خلاف آواز ضرور اٹھائے ‘اگرچہ اس کی آواز مسترد ہو جائے گی آواز کمپنی کے سالانہ اجلاس عام میں اٹھانی چاہیے مولانا محمد تقی عثمانی، مفتی محمد شفیع اور مولانا اشرف علی تھانوی اس رائے پر متفق ہیں۔

چوتھی شرط………!!

یہ کہ جب منافع dividedتقسیم ہو’
تو وہ شخص income statement کے ذریعے یہ معلوم کرے آمدنی کا کتنا حصہ سودی ڈیپازٹ سے حاصل ہوا ہے؟
مثلا اس کو کل آمدنی کا پانچ فیصد حصہ سودی ڈیپازٹ میں رقم رکھوانے پر حاصل ہوا ہے تو اب وہ شخص (شیئر ہولڈر) اپنے نفع کا 5 فیصد حصہ صدقہ کر دے۔
بعض لوگ شیئرز کی خرید و فروخت کیپیٹل گین( capital gain)کے لیئے کرتے ہیں مکان کے شیئر خرید لیتے ہیں اور پھر چند روز بعد شیئر کی قیمت بڑھنے پر انہیں فروخت کر کے نفع حاصل کرتے ہیں ہیں اور یا کسی کمپنی کے شیئرز کی قیمت کم ہو جاتی ہے تو اس کے شیئر خرید لیتے ہیں اور بعد میں فروخت کر دیتے ہیں
اسی طرح خریدوفروخت کے ذریعے سے نفع حاصل کرنا ان کا مقصود ہوتا ہے اس کمپنی میں حصہ دار بننا اور اس کا سالانہ منافع حاصل کرنا ان کا مقصود نہیں ہوتا بلکہ خود شیئرز ہی کو ایک سامان تجارت بنا کر اس کا لین دین کرتے ہیں
جس طرح شیئرز خریدنا جائز ہے اسی طرح ان کی فروخت کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ پیچھے اوپر مذکور چار شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہو اور جس طرح یہ جائز ہے کہ ایک چیز آپ آج خرید کر کل فروخت کر دیں اور کل خرید کر پرسوں فروخت کردے بالکل اسی طرح شیئرز کی خرید و فروخت جائز ہے۔

!!!شیئرز کی خرید و فروخت کو اس وقت درست کہنا دشوار ہے جب بعض اوقات اسٹاک مارکیٹ میں شیئرنگ کا لین دین بالکل مقصود نہیں ہوتا بلکہ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس طرح سٹہ بازی کرکے آپس میں فرق کو برابر کر لینا مقصود ہو تو یہ صورت بالکل حرام ہے اور شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔

!!!اسی طرح قیمت بڑھا کر واپس لینے کی شرط لگانا حرام ہے اور یہ شرط فاسد ہے

اگر اسٹاک مارکیٹ سے شیئر خریدا جائے اور اس کی وصولیابی یا قبضہ سے پہلے ہی وہ کمپنی تباہ ہوکر بے اثاثہ ہو جائے تو
اصول یہ ہے کہ رسک منتقل ہونے کی صورت میں شئیر آگے فروخت کرنا جائز ہے البتہ احتیاط کا تقاضہ بہر صورت یہی ہے کہ جب تک قبضہ (ڈلیوری) نہ مل جائے اس وقت تک شیئر آگے فروخت نہ کیا جائے

اللہ رب العزت ہمیں حلال ذرائع سے رزق حاصل کرنے اور خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

Shares: