کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے
سر میں اگر وہ شوق شہادت نہیں رہا
ن م راشد
جدید اردو نظم کے بانی اور آزاد نظم کے پہلے شعری مجموعے ” ماورا” کے خالق نذر محمد جنجوعہ المعروف ن م راشد یکم اگست 1910 میں ضلع گجرانوالہ کے قصبہ علی پور چٹھہ کے اکال گڑھ کے ایک زمیندار اور ڈپٹی انسپکٹر اسکولز راجہ فضل الاہی چشتی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و میٹرک اکال گڑھ میں بقیہ تعلیم لائل پور اور لاہور میں حاصل کی۔ 1935 میں اپنے ماموں کی بیٹی سے شادی کی جس کا 1961 میں انتقال ہوا جس کے بعد انہوں نے 1963 میں ایک برطانوی خاتون شیلا انجیلی سے شادی کی ۔
ن م راشد نے تعلیم سے فراغت کے بعد کمشنر آفس ملتان میں ملازمت کی۔ اس کے بعد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ وہ ریڈیو لکھنو اور پشاور کے اسٹیشن ڈائریکٹر رہے ۔ کچھ عرصہ فوج میں ملامت کی جس کے بعد آئی ایس پی آر میں ملازمت کی اس دوران ایران، عراق، مصر اور سری لنکا میں تعینات رہے۔ کچھ عرصہ بعد اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں ملازم رہے اس دوران نیو یارک، کراچی اور جکارتہ میں تعیناتی رہی ۔
گھڑ سواری ، تیراکی اور کشتی رانی کے شوقین رہے۔ ن م راشد نے 7سال کی عمر میں ” انسپکٹر اور مکھیاں” کے عنوان سے پہلی نظم کہی جبکہ باقاعدہ شاعری کا آغاز انہوں حمدیہ اور نعتیہ شاعری سے کیا۔ 1942 میں ان کی آزاد نظموں کا شعری مجموعہ” ماورا” شائع ہوا جو کہ اردو میں آزاد نظموں کی پہلی کتاب ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں ” لا_انسان” ایران میں اجنبی اور ” گمان کا ممکن” شامل ہیں۔ 9 اکتوبر 1975 میں لندن میں ان کا انتقال ہوا وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں مذہب بیزار ہو چکے تھے چناں چہ انہوں نے اپنی نعش کو جلانے کی وصیت کر دی تھی اس لیے ان کی اہلیہ شیلا نے ان کے جسد خاکی کو نذر آتش کرا دیا تھا جبکہ ن م راشد کے بیٹے اپنے والد کی لاش کو جلانے کے حق میں نہیں تھے لیکن ان کی ماں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے کے آنے سے پہلے ہی اپنے شوہر کی وصیت پر عمل درآمد کر دیا تھا۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
حماس حملے؛ ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد 800 سے بھی تجاوز کرگئی
کارٹون آرٹسٹ نامین ناصر الحبارہ نے گولڈن جوبلی مقابلے میں پوزیشن حاصل کرلی
چین نے ڈالر کے استعمال کا خاتمہ کرنے کا اعلان کردیا
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت آج بھی مکمل نہ ہو سکی
تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا
دل میں ترے وہ ذوقِ محبت نہیں رہا
پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے
تو ہی حریفِ ذوقِ سماعت نہیں رہا
آئیں کہاں سے آنکھ میں آتشِ چکانیاں
دل آشنائے سوزِ محبت نہیں رہا
گل ہائے حسنِ یار میں دامنِ کشِ نظر
میں اب حریص گلشن جنت نہیں رہا
شاید جنوں ہے مائلِ فرزانگی مرا
میں وہ نہیں وہ عالمِ وحشت نہیں رہا
ممنون ہوں میں تیرا بہت مرگِ ناگہاں
میں اب اسیر گردشِ قسمت نہیں رہا
جلوہ گہہِ خیال میں وہ آ گئے ہیں آج
لو میں رہین زحمتِ خلوت نہیں رہا
کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے
سر میں اگر وہ شوقِ شہادت نہیں رہا
ن م راشد