جہیز ایک سماجی لعنت۔۔۔ از قلم : ساحل توصیف محمد پورہ کلگام

0
182

۔۔۔۔جہیز ایک سماجی لعنت۔۔۔

از قلم : ساحل توصیف محمد پورہ کلگام

جہیز ایک سماجی ناسور ہے جس نے ہزاروں کی تعداد میں زندگیاں ضائع کی ہوئی ہیں۔ یہ کینسر کی طرح ہمارے سماج میں سرایت کر گیا ہے۔یہ وہ بیماری ہے جس کا علاج کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔پہلے پہل یہ رسم ہندوؤں میں رائج تھی اور آج بھی ہے ہندوؤں کی زُبان میں جہیز دان کہتے ہیں مگر اب یہ لعنت مسلمانوں میں بھی پھیل چُکی ہے۔ جہیز کی وجہ سے لاکھوں لڑکیاں اپنی زندگی کے سنہرے دن کھو چُکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے شہر سرینگر میں پنتیس ہزار لڑکیاں ایسی ہیں۔ جن کی عمر تیس سے پینتیس سال کے درمیان بتائی جاتی ہے ابھی اپنے ہاتھوں میں مہندی لگنے کے انتظار میں ہیں مگر جہیز کی لعنت نے ان کی شادی پہ قدغن لگا دی ہے کیونکہ وہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ اتنا انتظام نہیں کر سکتے جتنا شادی پر اُن سے ڈیمانڈ کیا جاتا ہے۔نتیجتاً لڑکیاں اپنے والدین پر بوجھ بننے لگتی ہیں۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ لڑکیاں رحمت ہوتی ہیں مگر جب وہ ہی لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں اس بدعت کی وجہ سے بچیاں ماں باپ پر اس قدر گراں گُزرتی ہیں جیسے وہ ان کی بیٹیاں نہیں۔رحمت نہیں ایک زحمت ہوں(اللہ بچائے)۔
دور جہالت میں پہلے بیٹیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا ۔اسلام نے بیٹیوں کو وہ حقوق دیے جو آج تک کوئی بھی مذہب نہ دے سکا اسلام نے بیٹیوں کے لئے باضابطہ طور پہ باپ کی جائیداد میں بھی حصہ رکھا ہے مگر اس کے برعکس ہم جہیز کی لعنت پر عمل پیرا ہیں ۔ہندو مذہب میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے کہ باپ کے جائیداد میں بیٹی کا کوئی حصہ ہے اس لئےوہ شادی کے موقعے پر اپنی بیٹی کے لئے جہیز کا انتخاب کرتے ہیں مگر اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں ملتا کہ جس کو ہم جہیز کی بدعت سے تعبیر کرتے۔مگر ہمارے مسلم سماج میں بھی اس لعنت نے پزیرائی حاصل کر لی ہے۔
جہیز کی اس لعنت نے ہزاروں کی تعداد میں لڑکیوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔ایک طرف شادی سے پہلے لاکھوں کی ڈیمانڈ تو دوسری طرف وازواں کا خرچہ غریب تو قرض لینے یا زمین بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔نتیجتاً عمر بھر کی کمائی ایک ہی جھٹکے میں ختم ہو جاتی ہے۔اور لڑکی کے گھر والے عُسرت کی زندگی گُزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کشمیر میں اس بدعت نے گہری جڑ پکڑ لی ہے یہاں پر شادی کے نام پر بہت سے غیر اخلاقی مراسم نے جنم لیا ہے۔ پہلے دن جب شادی طے ہو جاتی ہے تو ایک دو آدمی چائے پینے کے لئے جاتے ہیں اور پیالے میں گیارہ سو روپے ڈال دیتے ہیں یعنی رشتہ پکا اس کے بعد مہمان نوازی یعنی دس بیس مہمان لڑکی والوں کے گھر چلے جاتے ہیں اور لاکھوں روپیوں کا خرچہ کرواتے ہیں اور بعد میں لڑکی والے لڑکے والوں کے ہاں چلے جاتے ہیں جس سے بھی لاکھوں کا خرچہ ہوتا ہے اس کے بعد الوداعی تقریب ہوتی ہے جس میں بھی لاکھوں کا خرچہ آتا ہے اور پھر لڑکی والوں کو جہیز کا اہتمام کرنا ہوتا ہے ۔جس کی قیمت بھی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ کئ جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ باراتیوں کی پلیٹوں میں بھی سونے کی کچھ چیزیں رکھی جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں پر ہزاروں لڑکیاں شادی کا خواب سجائے اپنی آرزوؤں کو اپنے سینے میں دفن کر چُکی ہیں اور شادی کے نام سے بھی ڈر جاتی ہیں ۔۔۔
اور دوسری طرف کچھ جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ لڑکے والے لڑکی والوں کو بچانے کی کوشش میں خود مالی لحاظ سے کمزور ہو جاتے ہیں وہاں چاہیے کہ لڑکی والے بھی ان کے لئے آسانی کا سامان پیدا کریں مگر ایسے معاملے ہمارے سماج میں بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔۔۔
غرض یہ کہ جہیز جیسی بدعت کی ہر جگہ ہر پلیٹ فارم پہ مذمت کرنی چاہیے تاکہ یہ ناسور ہمارے سماج سے قطعی طور پر ختم ہو جائے اور ہماری بیٹیاں سکون محسوس کریں اور اُجڑے ہوئے دل کے باغ سرسبز وشاداب ہو جائیں ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔ آمین یا رب

ساحل توصیف۔۔
محمد پورہ کولگام۔۔

Leave a reply