مارشل لا کے دور میں تو ایسا ہوتا تھا لیکن جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں سنا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ. نے ایسا کیوں‌کہا

باغی ٹی وی : سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ مردم شماری 2017 میں ہوئی ابھی تک حتمی نوٹی فکیشن جاری نہ ہوسکا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ کیا 2017 کے بعد سب ہوگئے؟ اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ مردم شماری پر سندھ حکومت اور دیگر کے اعتراضات ہیں.مردم شماری پر اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کمیٹی بنادی ہے،

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سوال کیا کہ کسی سیاسی جماعت کا نام نہ لیں، یہ آئینی معاملہ ہے،کیا سندھ کا اعتراض آبادی کم ہونے کا تھا، کیا پاکستان کو اسطرح سے چلایا جارہا ہے؟ جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ آرڈیننس تو 2 سے 6 روز میں آجاتا ہے، .مردم شماری پر فیصلہ نہ ہوسکا، ر.یہ ترجیحات کا ایشو نہیں بلکہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ. نے سوال کیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا چیئرمین کون ہے؟اٹارنی جنرل. نے جواب دیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا چیئرمین وزیراعظم ہوتا ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ. نے پوچھا کہ کیا وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیراعظم نے اجلاس بلایا تھا لیکن کسی وجہ سے نہ ہوسکا،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ. نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو صوبے اپنے مسائل گنوانا شروع کردیتے ہیں، پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے جمہوریت کا قتل کیا، .پنجاب حکومت کی بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کی کوئی وجہ تو ہوگی،مارشل لا کے دور میں تو ایسا ہوتا تھا لیکن جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں سنا، کیا پنجاب لوکل گورنمنٹ ختم کرنے کا موڈ بن گیا تھا؟ایڈیشنل ایڈووکٹ جنرل نے جواب دیا کہ .پنجاب لوکل گورنمنٹ کا نیا قانون بنا دیا گیا ہے،

Shares: