جس کو بھی دیکھیے ہے وہی دشمن سکوں، کیا دور ہے کہ جنگ و جدل چاہتے ہیں لوگ

26؍اکتوبر 2019ء کو اعجازؔ رحمانی کا انتقال ہوا۔
0
124
Poet

کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو تیرے نام چھوڑ آیا ہوں

اعجاز رحمانی

12؍فروری 1940: تاریخ پیدائش

اردو کے ممتاز شاعر سید اعجاز علی المعروف اعجاز رحمانی 12 فروری 1940ء کو علی گڑھ ہندوستان میں پید اہوئے۔ ان کے والدین کا کم عمری میں انتقال ہوگیا، اس وجہ سے پرائمری اور دینی تعلیم ہی علی گڑھ میں حاصل کرسکے۔ 1954ء میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔کراچی آنے کے بعد ادیب اور ادیب فاضل کے امتحانات پاس کیے اور ابراہیم انڈسٹری ، عثمان آباد کراچی میں ملازم ہوگئے۔ اپنے ایک عزیز فضا جلالوی کے ایما پر قمرؔ جلالوی کے شاگرد ہوگئے ایک مقامی روزنامے میں روزانہ قطعات لکھتے رہے۔ تاریخ اسلام کو منظوم کرتے رہے ۔ایک نعت گو کی حیثیت سے انھیں نمایاں مقام حاصل ہے۔

ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’اعجاز مصطفی‘‘، ’’پہلی کرن آخری روشنی‘‘ (نعتیہ مجموعے)، ’’کاغذ کے سفینے‘‘، ’’افکار کی خوشبو‘‘، ’’غبار انا‘‘، ’’لہو کا آبشار‘‘، ’’لمحوں کی زنجیر‘‘ (غزلوں کے مجموعے)، ’’چراغ مدحت‘‘، ’’جذبوں کی زبان‘‘، ’’خوشبو کا سفر‘‘۔
26؍اکتوبر 2019ء کو اعجازؔ رحمانی کا انتقال ہوا۔

👈 بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:311

اعجازؔ رحمانی کی شاعری سے چند منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا
سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا

فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا

پڑتی ہے تو پڑ جائے شکن اس کی جبیں پر
سچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا

ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ سحر کے
خورشید کی کرنوں کو بکھرنا ہی پڑے گا

میں سوچ رہا ہوں یہ سر شہرِ نگاراں
یہ اس کی گلی ہے تو ٹھہرنا ہی پڑے گا

اب شانۂ تدبیر ہے ہاتھوں میں ہمارے
حالات کی زلفوں کو سنورنا ہی پڑے گا

اک عمر سے بے نور ہے یہ محفلِ ہستی
اعجازؔ کوئی رنگ تو بھرنا ہی پڑے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظالم سے مصطفیٰؐ کا عمل چاہتے ہیں لوگ
سوکھے ہوئے درخت سے پھل چاہتے ہیں لوگ

کافی ہے جن کے واسطے چھوٹا سا اک مکاں
پوچھے کوئی تو شیش محل چاہتے ہیں لوگ

سائے کی مانگتے ہیں ردا آفتاب سے
پتھر سے آئنے کا بدل چاہتے ہیں لوگ

کب تک کسی کی زلف پریشاں کا تذکرہ
کچھ اپنی الجھنوں کا بھی حل چاہتے ہیں لوگ

بار غم حیات سے شانے ہوئے ہیں شل
اکتا کے زندگی سے اجل چاہتے ہیں لوگ

رکھتے نہیں نگاہ تقاضوں پہ وقت کے
تالاب کے بغیر کنول چاہتے ہیں لوگ

جس کو بھی دیکھیے ہے وہی دشمن سکوں
کیا دور ہے کہ جنگ و جدل چاہتے ہیں لوگ

درکار ہے نجات غم روزگار سے
مریخ چاہتے ہیں نہ زحل چاہتے ہیں لوگ

اعجازؔ اپنے عہد کا میں ترجمان ہوں
میں جانتا ہوں جیسی غزل چاہتے ہیں لوگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
دیا جلا کے سر شام چھوڑ آیا ہوں

کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو ترے نام چھوڑ آیا ہوں

ہوائے دشت و بیاباں بھی مجھ سے برہم ہے
میں اپنے گھر کے در و بام چھوڑ آیا ہوں

کوئی چراغ سر رہ گزر نہیں نہ سہی
میں نقش پا کو بہر گام چھوڑ آیا ہوں

ابھی تو اور بہت اس پہ تبصرے ہوں گے
میں گفتگو میں جو ابہام چھوڑ آیا ہوں

یہ کم نہیں ہے وضاحت مری اسیری کی
پروں کے رنگ تہہ دام چھوڑ آیا ہوں

وہاں سے ایک قدم بھی نہ جا سکی آگے
جہاں پہ گردشِ ایام چھوڑ آیا ہوں

مجھے جو ڈھونڈھنا چاہے وہ ڈھونڈھ لے اعجازؔ
کہ اب میں کوچۂ گمنام چھوڑ آیا ہوں

Leave a reply