دو متحارب قوتوں کے درمیان جنگ
( عین لڑائی کے دوران یا لڑائی کے احتمال کے وقت ) گرفتار ہونے والا شخص جنگی قیدی کہلاتا ہے۔
تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام سے پہلے قدیم جاہلیت کے دور میں جنگی قیدیوں کے حقوق کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
جنگی قیدیوں کے حقوق کاغذ پر بھی تسلیم نہیں کئے جاتے تھے۔
جنگی قیدیوں کو یا تو قتل کر دیا جاتا تھا یا ایسا غلام بنا لیا جاتا تھا کہ مالک کو ان کے زندگی اور موت کا مختیار بنا دیا جاتا۔
اسلام کا ابرِ رحمت برسا تو انسان کی احیثیت یک دم بدل گئی اور محسنِ انسانیت جناب رسول اللہ ﷺ نےانسانی سماج پر احسانِ عظیم فرمایا۔
فتح مکہ کے موقع پر فوج میں اعلان کروایا کہ کسی مجروح پر حملہ نا کیا جائے کسی بھاگنے والے کا پیچھا نا کیا جائے کسی قیدی کو قتل نا کیا جائے۔
بلکہ سب کیلیے عام معافی کا اعلان کیا۔
بے شک ۔۔۔۔۔!!!
اسلام سے زنگی خوبصورت ہوجاتی ہے۔
ظہور اسلام کے بعد جن مصائب و تکلیفات کا سامنا صحابہ کرام نے کیا اج بھی ان مصائب تکلیفوں کا سامنا صالحین کر رہے ہیں۔
اج بھی میر صادق میر جعفر جیسے دین کے غدار لوگ مسلمانوں کے صفوں میں پائے جاتے ہیں۔
نام نہاد مہذب مغربی اقوام کا وطیرہ یہی رہا ہے کہ مسلم اکثریتی ملکوں میں زمامِ اقتدار ان لوگوں کو سونپی جاتی ہے جو مغرب پرست ہو اور مسلمانوں کے خون سے مغرب کی پیاس بجھانے میں مغرب کی تقلید کرتی ہو۔امریکہ بہادر کوافغانستان میں عبرتناک شکست کے بعد جیسے ہی افغانستان سے
راہ فرار ملی اسٹوڈنٹس ( طالبان )یک بعد دیگرے ولایتوں (صوبوں) کو برق رفتاری سے فتح کرنے لگ گئے ہیں اور انکی پیش قدمی تاحال جاری ہے۔
اسٹوڈنٹس نے جنگ کے پینتھرے یکسرتبدیل کئے ہیں اورشروعاتی لڑائی وہاں سے شروع کی(شمالی افغانستان قندوز شبرغان فاریاب وغیرہ) جہاں سن 2000 ء سے پہلے ان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور شمالی اتحاد کی ملیشیاء ("گلم جلم ملیشیا“ اسے ”بوری لپیٹ ملیشیا“ بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ یہ لوگ دشمن کو قالین وغیرہ میں لپیٹ کر ہلاک کرتے تھے)ان کا ہر حملہ پسپا کرتی۔ اج الحمد اللہ وہاں کی فضاء "اللہ اکبر ” کےفلک شگاف نعروں سے گونج رہی ہے۔
طالبان کے پیش قدمی کے ساتھ ہی ذہن میں دشت لیلی کی المناک داستان اور غدار جنرل رشید دوستم گردش کرنے لگ جاتے ہیں۔
دسمبر 2001 ﻗﻨﺪﻭﺯ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ محاصرہ طاﻟﺒﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻨﺮﻝ ﺭﺷﯿﺪ ﺩﻭﺳﺘﻢ ﻧﮯ وعدہ کیا تها کہ تم لوگ ہتھیار ڈال دو ﻣﯿﮟ نے ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺳﮯ مذاکرات ﮐﺮلئیے
ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ بحفاظت نکالونگا،
کہیں دنوں سے محاصرہ ،بھوک پیاس سے نڈھال، اور اسلحہ کی شدید کمی کے باعث ،
مجاہدین نے فیصلہ کیا کہ لڑائی میں ان کا ہی زیادہ نقصان ہونا تھا اس صورتحال میں یہ انکا بہترین فیصلہ تھا۔کیونکہ اس معاہدے کا ضامن بہر حال ایک مسلمان تھا
جنہوں نے قران پر ہاتھ رکھ کر انکو یقین دلایا تھا کہ میں بحفاظت سب کو قندوز سے شبرغان تک پہنچاہونگا۔ یوں مجاہدین نے
ہتھیار ڈال دئیے۔
دوستم نے گنجائش سے زیادہ طالبان کوکنٹینروں میں ڈال کے قندوز سے شبرغان روانہ کیا ۔
جب ان بند کنٹینروں میں ان مظلوموں کا دم۔گھٹنے لگا تو زور زور سے کنٹینر پیٹناشروع
کر دئیے۔
عالمی امن کے مہذب اور نام نہاد ٹھیکداروں نے کنٹینر کھولنے کے بجائے ان چلتی کنٹینروں پر فائرنگ کا حکم دے دیا۔
ایک جرمن رپورٹر کے مطابق کہ میری گاڑی اس کنٹینروں کے قافلے کے پیچھے جا رہی تھی اور اب پورے روڈ پر خون ہی خون بہہ رہا تھا۔
طالبان کی بڑی تعداد کو کنٹینروں میں ہی
شہید کر دیا گیا اور جو بچ گئے یا زخمی تھے انکے ہاتھ پاؤں باندھ کر جنرل دوستم ( جو اجکل فیلڈ مارشل ہیں) نے دشت لیلی میں زندہ دفن کر دئیے ۔
امریکی حکومت کی فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کی دستاویزات اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اینٹیلیجنس رپورٹ ،جو 2002 میں ڈی کلاسیفائیڈ کی گئی تھی، کے مطابق دشت لیلی میں شہید ہونے والوں کی تعداد 1500 سے 2000 کے درمیان تھی جبکہ طالبان کے مطابق اس سانحہ میں شہید ہونے والے مجاھدین کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ ہے۔
یاد رہےافغانستان کے سب سے بڑا فوجی
اعزاز( مارشل جنرل ) پانے والا جنرل دوستم روسی اتحاد کے افغانستان پر قبضے کےبعد روس کی حمایت میں بھی جنگ لڑی اور
بعد ازاں شمالی اتحاد کے پرچم تلے امریکہ کا ساتھ دے کر طالبان کی حکومت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ٹویٹر ہینڈل: @chalakiyan

Shares: