کیا آپ کو پتا ہے کہ امریکی حکومت کے خزانے کی سیکرٹری Janet Yellen نے کہا ہے کہ امریکی معیشت ایک بڑی تباہی سے دوچار ہو سکتی ہے۔ معیشت کے بارے میں اس طرح کے فقرے کسی پاکستانی کے لیے سننا ایک عام سی بات ہے، لیکن بحثیت امریکی اگر حکومت کا ایک بڑا عہدے دار یہ کہے کہ اس کی حکومت کے پاس دس دن کے بعد یعنی سولہ یا چودہ اکتوبر کو اپنے فوجیوں کو دینے کے لیے Pay checques. اپنے پچاس لاکھ ریٹائرڈ شہریوں کو دینے کے لیے Social security fund اور اپنے تیس لاکھ فیملیوں کو Monthly child tax credit دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو یہ کتنا بڑا دھماکہ ہے۔یہ دھماکہ صرف امریکیوں کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہے جو اپنی تجارت ڈالر میں کر رہے ہیں اور Foreign reserve کی صورت میں کھربوں ڈالر اپنے بینکوں میں رکھے بیٹھے ہیں۔
دنیا میں یہ تجارت کا اصول ہے کہ اگر ایک سال کے تجارتی اور قرضے کے بل کے لیے پیسے آپ کے اکاونٹ میں موجود نہیں ہیں تو آپ کی کریڈٹ ریٹنگ گر جاتی ہے اور آپ کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ایک تلوار کی طرح سر پر لٹکنے لگتا ہے۔ اس لیے ہر ملک اپنی تجارت اور قرضوں سمیت اپنے خزانے ڈالر سے بھر کر رکھتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ڈالر چھاپنے والا ملک یہ کہے کہ اس کے پاس ایک ہفتے بعد اپنے سرکاری ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہ نہیں ہے تو سوچیں یہ کتنا بڑا طوفان پیدا کر دے گا۔ کیونکہ امریکی فیڈرل گورنمنٹ کے ملازم ہونے سے زیادہ اور کون سی نوکری محفوظ ہو سکتی ہے، یہاں تو پاکستان کے سرکاری ملازم کا کوئی مان نہیں ہے۔ جو ایک دفعہ حکومت میں بھرتی ہونے کے بعد اس قوم کے داماد بن جاتے ہیں۔ نخرے سے کام کرتے ہیں اور پھر تمام تر سہولتوں کے بعد ساری زندگی قوم کے پیسے سے پینشن ملتی ہے۔ جوانی بھی محفوظ اور بڑھاپا بھی۔ بحرحال واپس آتے ہیں امریکی معیشت کی طرف۔کہ آخر یہ مسئلہ ہے کیا اور کیا امریکہ اس سے نکل جائے گا۔ اس وقت امریکہ اور پاکستان کی معیشت میں ایک بیماری مشترک ہے، اور وہ قرض کے پیسے سے حکموت چلانے کا فن۔ امریکہ نے دنیا پر اپنی بالادشتی قائم رکھنے کے لیے اپنے اخراجات کو بہت زیادہ بڑھا لیا ہے۔ جہاں امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے وہیں دنیا میں سب سے زیادہ قرضہ بھی امریکہ نے ہی لیا ہوا ہے جو
28.3 trillion dollerبنتا ہے۔ چاہے کوئی عام سا شخص ہو یا بڑا ملک، معیشت کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ اگر آپ کے اخراجات آپ کی آمدنی سے زیادہ ہیں تو اسے پورا کرنے کے لیے آپ کو قرضہ لینا پڑے گا، اور اس قرض پر سود آپ کے اخراجات میں مزید اضافہ کر دے گا۔ اور اسطرح قرض کی واپسی کے لیے مزید قرض
Debt Trap میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اس وقت امریکہ اپنی GDP کا اٹھانوے فیصد لے چکا ہے اور اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو اگلی دو دہائیوں میں اس کا قرضہ اس کی
GDP کے 195% ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں کنگال پارٹی کو قرض دینے والوں میں بھی کمی آ جاتی ہے اورتباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بحثیت انسان تو ہم نے دیکھا ہے کہ بہت دے لوگ خودکشی کر لیتے ہیں لیکن ممالک Desprate ہو کر ایسے کام کر بیٹھتے ہیں کہ تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
اس وقت امریکہ کے آمدنی اور کمائی میں تین ٹریلین ڈالر کا فرق ہے حکومت چلانے کے لیے اسے ہر سال تین ہزار ارب ڈالر قرض لینا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے ملازمیں کو وقت پر تنخوا دے دے سکیں اور حکومتی مشینری چلتی ہے۔گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر کی معیشتیں تاریخ کے بد ترین بحران سے گزری تھیں جس کے دوران ترقی یافتہ معیشتوں نے ہزاروں ارب ڈالر کے نوٹ چھاپ کر عوام کو گھر بیٹھے تقسیم کیے تھے تاکہ ممکنہ عوامی بغاوت کو ابھرنے سے روکا جا سکے۔ لیکن اب معیشتوں کی بحالی کے آغاز کا واویلا کیا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ اب سرمایہ دارانہ نظام ریکوری کی جانب گامزن ہے۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے اس ریکوری کے کھوکھلے پن کو عیاں کر دیا ہے اور یہ عندیہ دے دیا ہے کہ آنے والے عرصے میں ماضی کی نسبت کہیں گہرا اور وسیع عالمی مالیاتی بحران ممکن ہے جو پوری دنیا کی معیشتوں کو ڈبونے کا باعث بن سکتا ہے۔ دنیا بھر کے حکمران طبقات اس صورتحال میں شدید خوفزدہ ہیں اور اپنے نظام کو بچانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں لیکن ایک بوسیدہ اور انہدام کے قریب پہنچی عمارت کی طرح اس نظام پر جتنا مرضی رنگ و روغن کر لیا جائے اس کی بنیادوں میں موجود خرابی کودرست نہیں کیا جا سکتا۔اس وقت امریکہ میں لڑائی یہ ہے کہ ہر ملک میں ایک Debt limit ہوتی ہے جس میں حکومت کو ایک حد تک قرض لینے کی لمٹ دی جاتی ہے اور حکومت کو بے مہار نہیں چھوڑا جاتا کہ وہ جتنے مرضی قرضے لے کر شہہ خرچیاں کرے۔ اس طرح امریکہ میں بھی ایک Debt limitہے اور امریکہ اپنی لمٹ سے کہیں زیادہ قرض پہلے ہی لے چکا ہے۔ ایسی صورت میں امریکہ کی کانگریس قانون سازی کے زریعے یہ فیصلہ کرے گی کہ حکومت کو اخراجات پورے کرنے کے لیے مزیدDebt limitبڑھانی چاہیے یا نہیں، اس وقت کانگریس میں Republican اور Democrat کی تعداد برابر ہے۔ اور اس کے لیے مخالف پارٹی Republican کی سپورٹ کی ضرورت ہے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ جس طرح بائیڈن نے2 trillionڈالر کے
Infrastructure planاناونس کیئے ہوئے ہیں اس کے لیے وہ کسی صورت Debt limitبڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ بحرحال اس صورتحال کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا امریکہ میں یہ صورتحال 2011میں بھی پیش آگئی تھی ۔ لیکن اس وقت اس بحران کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے، امریکہ کی ایک بیمار گھوڑے جیسی صورتحال پوری دنیا کی ذہن سازی کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے لوگ اب سونے سمیت دیگر کرنسیوں میں تجارت سمیت بہت سے آپشنز کو بڑا سیریس لینا شروع ہو گئے ہیں۔ جو امریکہ کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ کیسے اس کے لیے آپ کو یہ چھوٹی سے کہانی سننی پڑے گی۔
اب ذرا یہ سوچیے کہ امریکی وزارت خزانہ محض ایک سال کی مدت میں کہاں سے تین ہزار پانچ سو ارب ڈالر کا خسارہ پورا کرنے کا اہتمام کرسکتی ہے؟ آخر ایسا کیا ہوگیا تھا کہ امریکہ مختصر میعاد کے قرضوں کی دلدل میں پھنس گیا؟ امریکی حکومت نے بھی وہی کیا جو بہت سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں کیا کرتی ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے قرض اتارنے کے لیے قرض لینے کی روایت پر عمل کیا۔ اندرونی قرضوں پر سود کا بوجھ کم کرنے کے لیے قرضے لیے جاتے رہے۔ بہت سے پرائیویٹ ادارے اسی روش کو اپناکر تباہی کی منزل تک پہنچے۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں بہت سے بڑے ادارے اور حکومتیں قرضوں کو ادا کرنے کے بجائے ادائیگی ٹالنے کے جتن کرتی رہتی ہیں۔ جب تک خرابی مکمل طور پر واقع نہیں ہو جاتی! یہ طریق کار انسان، اداروں اور حکومتوں کو قرضوں پر قرضے لیتے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ قرض دینے والے جلد یا بدیر بیدار ہوکر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ قرض کی واپسی کا امکان کس حد تک ہے؟ اور جب ایسا ہوتا ہے تب خرابی تیزی سےپھیلنے لگتی ہے اور سود کی شرح بھی ہوش ربا رفتار سے بلند ہوتی جاتی ہے۔ پھر محفل اجڑنے لگتی ہے اور دیوالیہ قرار دیے جانے کی منزل آجاتی ہے۔ جب حکومتیں دیوالیہ ہوتی ہیں تو اسے ڈیفالٹ کہا جاتا ہے۔ کرنسی مارکیٹ پر نظر رکھنے والے اور اس مارکیٹ میں سٹے بازی کرنے والے اندازے لگاتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت کب ڈیفالٹ کر جائے گی۔اگر کوئی ملک اپنے قلیل المیعاد قرضوں کو ایک سال میں ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اسے غیر معمولی سیکورٹی رسک سے تعبیر کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں بازار زر کے سٹے باز آپ کے بونڈ، سیکورٹی اور کرنسی کو نشانہ بنانے لگتے ہیں اور ڈیفالٹ کی راہ واقعی ہموار ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گرین اسپین اور گوئیڈوٹی کے طے کردہ معیار کے مطابق امریکا کہاں کھڑا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کسی بھی شخص یا ملک کو قرض دینے سے پہلے اس کے اثاثے یا جائیداد دیکھی جاتی ہے، اگر اس کے قرض اس کی جائیداد یا اثاثوں سے بڑھ جائیں تو وہ مقام اس کی تباہی کا مقام ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کی کرنسی کا طاقت کا اندازہ اس کے پاس سونے کے ذخائر سے ہوتا ہے، امریکہ کے پاس دنیا کا سب سے زیادہ سونا ہے۔ جو8133 tonبنتا ہے جس کی مالیت تقریبا پانچ سو بلین ڈالر بنتی ہے۔ جس کے مقابلے میں کہیں زیادہ وہ قرضہ لے چکا ہے۔ بھارت کے پاس 704 ton جبکہ پاکستان کے پاس یہ64 Tonہے۔ امریکا کے قلیل المیعاد بیرونی قرضے اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ امریکا پر قرضوں کا بوجھ اس قدر ہے کہ اب معیشت کی حقیقی بحالی کے بارے میں سوچنے والے احمق دکھائی دیں گے۔ قومی خزانے پر بوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب اترتا دکھائی نہیں دیتا۔اب اگر امریکہ مزید ڈالر چھاپتا ہے جو کہ وہ پہلے ہی بہت چھاپ چکا ہے، سات بلین ڈالر سے زاہد کے چین، جاپان اور دیگر ممال نے امریکہ کے Treasury bill خریدے ہوئے ہیں۔اگر وہ اس صورتحال سے ڈالر کو چھوڑ کر سونا خریدنے پر لگ گئے تو صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔
@shoaibsb1