آزادی! اللہ سبحان و تعالی کی عطا کردہ ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کی قدر و قیمت کا اندازہ کوئی پنجرے میں قید جاندار ہی لگا سکتا ہے (چاہے وہ انسان ہو یا پھر کوئی رند یا پرند ہو)۔ آج سے کچھ دِن بعد 14 اگست کو ہمارے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو الحمد للہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پہ وجود میں آئے ہوئے 75 سال ہو جائیں گے۔

پاکستان جو کہ اتنی آسانی سے حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ اِسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دیں ہیں۔ تو آج میں اپنی اِس تحریر کے زریعے اپنے بزرگوں کی پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے کی گئی جہد مسلسل کی اُن عظیم داستانوں اور کہانیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ سب کچھ بتلانے کی کوشش کروں گا جِن سے گزرتے ہوئے انہوں نے ہمارے لیے یہ عظیم وطن حاصل کیا۔

پاکستان کو حاصل کرنے کا مقصد صرف ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا ہی نہیں تھا کہ اُس دور کے عظیم لیڈر جناب قائد اعظم محمد علی جناح رح نے جِسے حاصل کرنا اپنی پوری زندگی کا مقصد بنا لیا تھا اور نہ ہی اسے حاصل کرنے کا مقصد کوئی ایسی جگہ تھی کہ جس کو حاصل کرنے کے لیے مفکّرِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح نے خواب دیکھے اور اپنی شاعری کے زریعے پورے برصغیر کے غلامی و بد حالی میں کی زندگی بسر رہے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگایا۔

اور نہ ہی پاکستان کا حاصل کرنا اِس لیے تھا کہ اِسے حاصل کر کے کچھ امیروں اور جاگیرداروں کو اپنی عیش و عشرت اور اپنی من مرضی کی حکمرانی کرنے کے لیے اِسے انہیں بطور سلطنت دے دیا جائے۔ جِس کو حاصل کرنے کے لیے لیاقت علی خان رح اور اُن کی زوجہ بیگم رعنا لیاقت علی خان رح نے انتھک سیاسی جدوجہد کی، چوہدری رحمت علی رح کہ جنہوں نے اس ملک خداداد پاکستان کا نام تخلیق کر کے زمین کے اس ٹکڑے کو بہترین نام دیا، حفیظ جالندری رح کہ جنہوں نے پاکستان کیلئے ہر دل عزیز الفاظ کے موتیوں سے پرویا ہوا قومی ترانہ لکھا جو آج پاکستان میں ہر جگہ سکولوں، کالجوں اور تقاریب میں پڑھا اور گایا جاتا ہے، سید امیر الدین کیدوانی رح کہ جنہوں نے پاکستان کو ایک شاندار اور نظروں و دلوں کو مسخر کر دینے والے ڈیزائن کا قومی پرچم بنایا جو آج پاکستان کے کونےکونے میں اور پوری دنیا میں پاکستان کی شان سمجھتے ہوئے لہرایا جاتا ہے اور اِن کے علاوہ ہر وہ فرد جِس نے پاکستان کے بنانے میں اپنا تھوڑا یا ذیادہ جتنا بھی کردار ادا کیا، ان سب کا صرف ایک ہی مقصد تھا، اور وہ تھا آزادی!

شروعات میں قائد اعظم محمد علی جناح رح کی قیادت میں جب آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا، تب انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی میں ڈوبے برصغیر کے مسلمانوں کی اس میں دلچسپی اور ان تحاریک میں شامل ہونے کا رجحان زیادہ نہیں تھا، اور وہ اس لیے بھی تھا کہ کوئی بھی اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ انہیں کبھی ایک الگ اور آزاد ریاست مل سکے گی۔

پھر قائد اعظم محمد علی جناح رح، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح اور ان کے بہت سے ساتھیوں کی لگاتار اور شبانہ روز کی محنت کے بعد برصغیر کے مسلمانوں میں بھی پاکستان کو حاصل کرنے کی لگن اور جذبہ پروان چڑھنا شروع ہوا۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک جنون اور عشق کی صورت حال اختیار کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ پھر پاکستان کے نعرے ہر زبان زد عام ہونے لگے اور ہر کوئی پاکستان کے بارے باتیں کرنے لگ گیا تھا کہ یہ پاکستان کیسا ہوگا؟

کوئی کہتا کہ پاکستان ایسا ہو گا کہ جہاں ہم سب اپنی مرضی اور آزادی سے رہ سکیں گے، کوئی کہتا تھا کہ پاکستان میں نہ کوئی کسی کا حاکم ہو گا اور نہ کوئی کسی کا محکوم، پاکستان میں بسنے والے سب برابر کے شہری ہوں گے اور بہت سی ایسی باتیں کہ جن کو سن کے برصغیر کے مسلمانان میں سے ہر کوئی چاہے وہ بوڑھا تھا یا جوان، مرد تھا یا عورت اور یہاں تک کہ بچے بھی پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے اتنے پُر جوش ہوتے جا رہے تھے کہ اُن کی اُس وقت کی کیفیات کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان کی آزادی کی شمع اتنی روشن ہوتی جا رہی تھی کہ اس کی کرنیں پورے برصغیر میں مسلمانوں کے دلوں کو منور کرتے ہوئے ان کے پاکستان سے عشق اور جنون کو ہر آنے والے دن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ گرماتی ہی چلی جا رہی تھیں اور مسلمانوں کے علاوہ بہت سے غیر مسلم بھی اس تحریک کا حصہ بنتے جا رہے تھے۔ اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح رح سے لوگوں کی محبت اور ان پہ اعتماد کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ انگریزی میں بھی تقریر کر رہے ہوتے تھے تو عام سادہ لوح اور انپڑھ مسلمان اُن کی باتیں سمجھ آئے بغیر بھی یہ کہہ رہے ہوتے تھے کہ یہ بندہ جو بھی کہہ رہا ہے ایک ایک حرف سچ ہے۔

پھر اِسی جنون، عشق اور لازوال محنت نے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح رح کی قیادت میں 14 اگست 1947ء کو وہ منزل حاصل کر لی جس کو پوری دنیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔

پاکستان حاصل کرنے کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور بہت سی محنت و کوششوں کے بعد پھر وہ مشکل ترین اور بے رحم لمحہ بھی آن پہنچا، جسے ہم ہجرت کے نام سے جانتے ہیں۔ چونکہ! تب ہر کسی کو پاکستان پہنچنے کی اتنی جلدی اور خوشی تھی اور ہر کوئی چاہتا تھا کہ جلد از جلد کسی طرح پاکستان پہنچ جائے، لیکن اپنا سب کچھ وہیں پیچھے چھوڑ کر جانے کا انہیں غم بھی بہت تھا اور تب کسی کو بھی یہ اندازہ تک نہ تھا کہ ہجرت کے دوران اِن پہ کیا کیا ظلم و ستم ہونے والے ہیں۔

پھر اُسی جنون اور عشق کے ساتھ اپنی اُس خوشی و غمی کے عالم میں پاکستان بنتے ہی اپنے قائد محمد علی جناح رح کی ایک آواز پر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کے لیے سب نے اپنے گھر بار، محل و بنگلے، زمینیں، جائیدادیں، مال و دولت و مویشی اور اپنا سب کچھ وہاں چھوڑ کر گروہوں کی شکل میں پاکستان کی طرف چلنا شروع کر دیا۔

کچھ تو امیر امراء تھے جو جہازوں کے زریعے پاکستان پہنچے، پھر اُس کے بعد کچھ ٹرینوں اور گاڑیوں کے زریعے پاکستان پہنچے۔ لیکن سب سے مشکل اور تکلیف دہ ہجرت اُن کی تھی جنہوں نے پیدل اور بیل گاڑیوں پہ سفر کیا۔ اور سب سے بڑی تعداد اِنہی کی تھی، جو کہ کروڑوں کی تعداد میں بوڑھے اور جوان مرد و عورت اور بچے جنہیں کئی کئی دن، ہفتے اور مہینے پاکستان پہنچنے کے لیے پیدل سفر کرنا پڑا۔ اِسی تھکا دینے والے پُرمشقت سفر میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے اُن ظالم ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے بے رحمانہ ظلم کا نشانہ بن بن کے شہید ہوئے۔

چنانچہ! ہجرت شروع کرتے وقت مہاجرین کی جو تعداد تھی اُس میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق اُس کی آدھی تعداد پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اور پھر جو پہنچے اُن میں سے بھی بہت سے زخمی حالت میں تھے کسی کا بازو، کسی کی ٹانگ، کسی کا ہاتھ اور کسی کا پا‌ؤں کٹا ہوا تھا اور کچھ بھوک و پیاس سے بدحال و بیمار تھے۔ لیکن! اس سب کے باوجود بھی وہ سب اس بات پہ اللہ تعالی کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اب ہم اپنے آزاد وطن پاکستان پہنچ گئے ہیں۔

اور اب آخر میں! میں یہ کہوں گا کہ میرے پاکستانیوں ہمارے لیے یہ سب ایک کہانی سے بڑھ کے کچھ نہیں ہے کیونکہ جب تک بندہ خود کسی مشکل سے نہیں گزرتا تب تک وہ اس کی تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتا اور کیونکہ میرا تعلق ایک ہجرت کر کے آئے ہوئے گھرانے سے ہے تو اپنے بڑوں سے سنی ہوئی بہت سی باتوں کو میں نے بہت قریب سے محسوس کیا ہوا ہے اور میں اُن تکالیف کا اندازہ بھی لگا سکتا ہوں۔ تو پھر آئیں ہم سب اس آنے والی جشن آزادی پہ یہ وعدہ کریں کہ ہم اپنے بزرگوں کے اس پاکستان سے اُسی جنون اور عشق کو آگے لے کر چلتے ہوئے اِس کی ترقی اور قدر و منزلت میں اضافے کے لیے اپنا تن، من دھن سب لگا دیں گے۔ اور کبھی بھی ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کے نام پہ آنچ نہیں آنے دیں گے۔
اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

وآخر دعونا أن الحمدلله رب العالمين

دُعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ شکریہ

Author Name: Rana Basharat Mahmood Twitter Handle: ‎@MainBhiHoonPAK

Shares: