جانور اور جانور!!! — ڈاکٹر حفیظ الحسن

0
48

آنجہانی عمر شریف ایک بار لطیفہ سنا رہے تھے کہ پاکستان میں کہیں گلی میں کتا نظر آ جائے لوگ اُسے پتھر مارنے لگ جاتے ہیں۔ کتا بھی سوچتا ہو گا کہ کتا میں ہوں اور کتے والی حرکتیں یہ کر رہے ہیں۔

پاکستان میں جانوروں پر ظلم کوئی نئی بات نہیں۔ہمارے ہاں ہر وہ جانور جسے کھایا نہ جا سکے اُس پر ظلم کرنا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس ضمن میں کیا امیر اور کیا غریب۔ امیروں کے ہاں بچوں کی برتھ ڈے پارٹیوں پر کھچوے، مچھلیاں، چوزے اور نہ جانے کیا کیا تحفے میں دیا جاتا ہے۔ اور نا سمجھ بچے جنکو انکی حفاظت کی نہ تو تربیت ہوتی ہے نہ شعور۔ کچھ دن انکے ساتھ کھلونوں کیطرح کھیل کر دلچسپی ختم ہونے پر انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ننھے جانور بھوک یا غفلت کے باعث تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔

اسی طرح آج کل کچھ نو دولتیوں کو شیروں، چیتوں اور ایسے جانوروں کو اپنے گھروں میں رکھنے کا شوق در آیا ہے جو دراصل بنے ہی جنگل کے ماحول کے لیے ہوتے ہیں۔ باہر کی دنیا کے امیر اور ہمارے ہاں کے امیروں میں جانوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے زمین اسمان کا فرق ہے۔ یہاں جانوروں کو پالنے کا کلچر کم اور فیشن زیادہ ہے۔ تبھی جانور کچھ عرصہ انکے "تہذیب یافتہ” ہونے کی نمائش بن کر مر جاتے ہیں۔

یہی حال غریبوں کا ہے۔ گدھوں پر اُنکے وزن سے کئی گنا زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں۔ سخت سے سخت کام جانوروں کی بساط سے بڑھ کر لیتے ہیں۔ لاٹھیوں ڈنڈوں سے اُنکا بھرکس بنا دیتے ہیں اور چارہ ضرورت سے کم کھلاتے ہیں۔ ایسے ہی متوسط طبقے کے لوگوں کو کتوں سے خوف آتا ہے۔ گلی کے کتے دیکھ کر انہیں مارنے کو دوڑتے ہیں۔

ٹی وی ٹاک شوز کے علاوہ مرغوں، کتوں، ریچھ وغیرہ کی لڑائی پر بھی کوئی پابندی نہیں ۔ ایسے ہی گلی گلی تماشا کرنے والے جانوروں کا بھی کوئی پرسانِ حال نہیں۔

کراچی میں ہر سال کئی ہزار کتوں کو بے رحمی سے مار دیا جاتا ہے۔ یہی حال دوسرے شہروں کا ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ مارنا حل ہے اُنکی سوچ سے کیا لڑنا کہ ان میں ایک بڑا پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے۔

یہی رویہ پاکستان میں غیر قانونی شکار کا ہے۔ پرندوں کے جھنڈ سائبیریا سے اتنا سفر طے کر کے آتے ہیں اُنہیں کچھ نہیں ہوتا مگر یہاں کچھ لوگ بندوقیں تانے قطاروں کی قطار میں اُن معصوموں می لاشیں گراتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جیپوں کے سامنے اُنکے مردہ جسموں کی نمائش کرتے ہیں اور پھر معاشرے میں فخر سے سر اونچا کر کے چلتے ہیں۔ کہاں سے رونا شروع کیا جائے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ آج ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے انسان ہی نہیں چرند پرند سب متاثر ہو رہے ہیں۔ کئی جانوروں کی نسلیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں کئی جانور جن میں چیتا، دریائی کچھوے، تیتر، عقاب یہ سب معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ۔

ماحولیات کی سائنس یہ کہتی ہے کہ انسان بقا کئی پیچیدہ عوامل کے تحت ایک کڑی میں تمام جانداروں کی بقا سے جُڑی ہے۔ اگر زمین سے شہد کی مکھیاں ختم ہو جائیں تو دنیا میں کئی سبزیاں اور پھل ختم ہو جائیں گے۔ انسان غزائی قلت کا شکار اور دنیا کی معیشت اربوں ڈالر کے نقصان سے دوچار ہو گی۔ کھانے ہینے کی اشیا غریب ہی نہیں امیروں کی پہنچ سے بھی دور ہو جائیں گی۔

پاکستان میں جانوروں ہر ظلم کے حوالے سے قانون انگریزوں کے زمانے کا ہے یعنی 1890 کا جسے Prevention of Cruelty to Animal Act کہا جاتا ہے۔ یہ قانون پرانا اور غیر موٹر ہے۔ مثال کے طور ہر اس میں جانوروں پر ظلم کی صورت عائد جرمانے کی رقم پرانے دور کے حساب سے ہے۔ اسی طرح اس میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جانوروں پر ظلم روکنے کے حوالے سے کوئی پہلو موجود نہیں۔

ایک خاطر خواہ پیش رفت جو ماضی میں کی گئی وہ حلال اتھارٹی ایکٹ کی تھی جس میں ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح کرنے کی ممانعت کی گئی مگر اس ہر بھی کون عمل کرتا ہے۔ اسی طرح محکمہ جنگلات اور تحفظِ وائلڈ لائف بھی اس قدر فعال نہیں اور آئے روز غیر قانونی شکار ہوتا رہتا ہے۔

اس تناظر میں سب سے پہلے تو ہمیں جانوروں نے ساتھ اپنے انفرادی رویے اور سوچ کو درست کرنا ہے۔ اس میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں، کیا بوڑھے ،کیا جوان اور کیا بچے۔ بحیثیت قوم ہم سب ہی کا رویہ جانوروں کے ساتھ شرمناک ہے۔ کسی معاشرے میں اخلاق کا معیار جانچنا ہو تو یہ دیکھنا کافی ہوتا ہے کہ وہ معاشرے اپنے جانوورں کے ساتھ کیسا سلوک برتتا ہے۔ اگر ہم بے زبان جانوروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھ سکتے ہیں تو انسانوں کے ساتھ بھی لازماً رکھیں گے۔

حکومتی سطح پر اس حوالے سے نہ صرف بہتر قانون سازی کی ضرورت ہے بلکہ اسکے عملدرآمد کی بھی۔ اس حوالے سے عام شہری کا بھی فرض بنتا کے کہ وہ جہاں جہاں جانوروں پر ظلم ہوتا دیکھے نہ صرف اسکے خلاف آواز اُٹھائے بلکہ اسے سوشل میڈیا پر اور اداروں کو رپوٹ بھی کرے۔

اگر ہم جانوروں کے حق کے لیے آواز نہیں اُٹھا سکتے تو انسانوں کے لئے کیا اُٹھائیں گے؟ پہلے جانوروں کے لیے آواز اُٹھانا سیکھیں، انسانوں کے لئے آواز اُٹھانے کی جرات خود ہی آ جائے گی۔

Leave a reply