سعودی عرب: ماہرین نے جزائر فرسان میں آثار قدیمہ کی نئی دریافتوں کا اعلان کیا ہے-
باغی ٹی وی : خبررساں ادارے ” العربیہ” کے مطابق جمعرات کو سعودی محکمہ ورثہ جات نے جازان شہرسے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جزائر فرسان میں آثار قدیمہ کی نئی دریافتیں کی ہیں-

یہ نوادرات پیرس ون یونیورسٹی کے تعاون سے ایک مشترکہ سعودی اور فرانسیسی سائنسی ٹیم کے تحقیق اور کھدائی کے کام کے دوران ملیں یہ نوادرات سعودی عرب میں ورثے کے تحفظ کے ادارے کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا تسلسل ہے۔

کھدائی کے نتیجے میں دوسری اور تیسری صدی عیسوی کے متعدد فن تعمیراتی مظاہر،نایاب نوادرات اور نمونے دریافت ہوئے ان نوادرات میں تانبے کے کھوٹ سے بنی تہہ شدہ رومن شیلڈ اور ایک اور قسم کی "لوریکا اسکوماٹا” شامل ہے جو پہلی سے تیسری صدی عیسوی تک رومن دور میں سب سے زیادہ استعمال ہوتی تھی یہ اب تک کی سب سے نایاب ٹکڑوں کی نمائندگی کرتی ہے۔

ان دریافتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جن مقامات سے یہ ملی ہیں وہاں پر 1400 قبل مسیح انسانی آبادی اور تہذیب موجود تھی۔
العربیہ نے سعودی پریس ایجنسی "ایس پی اے” کے حوالے سے بتایا کہ مشرقی رومن سلطنت "جینوس” کی تاریخ میں ایک مشہور رومن شخصیت کے ایک سُلیمانی نوشتہ کی دریافت کے علاوہ ایک چھوٹے مجسمے کا سربھی ملا۔

ایک سعودی فرانسیسی ٹیم نے 2005ء میں جزیرہ فرسان پر تحقیقی کام کے لیے کھدائی کا دورہ کیا تھا جس نے 2011 میں جزیرے پر سروے کا کام شروع کرنے کے لیے آثار قدیمہ کی اہمیت کے حامل مقامات کی نشاندہی کی تھی۔ 2011-2020 کی مدت کے دوران کی گئی پچھلی دریافتوں کے نتیجے میں بہت سی تعمیراتی اور آثار قدیمہ کی دریافتیں ہوئیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ مقامات تقریباً 1400 قبل مسیح کے ہیں۔

فرسان جزائر کے مقامات پر ہونے والے ان کاموں نے بہت سی آثار قدیمہ کی دریافتوں کے حصول میں بھی اہم کردار ادا کیا، اور اہم مقامات کا انکشاف کیا، جو مملکت کے جنوب میں واقع تاریخی بندرگاہوں کے تہذیبی اور بحیرہ احمر کی تجارت کو کنٹرول کرنے میں ان کی اہمیت اور قدیم میری ٹائم کمرشل ٹرانسپورٹ لائنز کے حوالے سے ماضی میں اہم رہ چکے ہیں۔
آثار قدیمہ کی یہ دریافتیں جزائر فراسان کی ثقافتی گہرائی، اور مملکت کی اہمیت اور مختلف تہذیبوں کے مرکز کے طور پر اس کے تزویراتی محل وقوع کی بھی تصدیق کرتی ہیں۔
قبل ازیں آسٹریلوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے سعودی عرب میں ہزاروں میل رقبے پر پھیلے ہوئے 4500 سال قبل بنائے گئے مقبروں کی باقیات دریافت کی تھیں یہ مقبرے 4,500 سال قدیم ہیں اور مدینہ منورہ کے شمال میں خیبر سے لے کر ’شرواق‘ سے بھی آگے تک، کسی زنجیر کی کڑیوں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں یہ تیسری صدی قبل مسیح کے وسط سے آخر تک کے دوران تعمیر کیے گئے تھے-
اس تحقیق کی سربراہی یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا، پرتھ کے ڈاکٹر میتھیو ڈٓالٹن کررہے تھےاس تحقیق کےلیے مصنوعی سیارچوں اور ہیلی کاپٹروں سے لی گئی تصاویر کے علاوہ زمینی سروے بھی کیے گئے مجموعی طور پر اس دوران 18,000 مقبروں کا مشاہدہ کیا گیا جبکہ ان میں سے 80 مقبروں کی کھدائی بھی کی گئی تھی –
قدیم مقبروں کی یہ باقیات نہ صرف تعداد میں بہت زیادہ ہیں بلکہ ایک خاص ترتیب میں بھی تعمیر کی گئی ہیں بعض مقبروں میں صرف ایک جبکہ بعض میں زیادہ افراد کو دفنایا گیا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی طور پر اہم شخصیات کے علاوہ عام لوگوں کو بھی مقبروں میں اجتماعی طور پر دفن کیا جاتا تھا۔








