جذبہ حب الوطنی، ہمت و حوصلے کی زندہ مثال .خیبر پختونخوا بم ڈسپوزل سکواڈ کا قابل فخر سپاہی .تحریر: محمد مستنصر
اکیسویں صدی کے اوائل میں جب امریکا اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان پر حملہ آور ہوا تو دہستگردی کے خلاف اس جنگ میں امریکا کے اتحادی کے طور پر سب سے ذیادہ نقصان پاکستان کو برداشت کرنا پڑا، پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکی افواج کے اتحادی کے طور پر فرنٹ رول کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیاتو بالخصوص افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی اضلاع کے ساتھ خیبرپختونخوا کے بندوبستی اضلاع بھی دہشتگردی کی لپیٹ میں آگئے، اور یوں پاکستان کو دو دہائیوں کے دوران اربوں روپے کے مالی نقصان کے علاوہ ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی بھی دینا پڑی۔ قوم کو دہشتگردی کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر خیبر پختونخوا پولیس کے افسروں اور جوانوں نے بھی کم وسائل کے باوجود گراں قدر قربانیاں دیتے ہوئے اہم کردار ادا کیا۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جب بھی خیبر پختونخوا پولیس کی قربانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ڈیرہ اسماعیل خان بم ڈسپوزل یونٹ کے انچارج عنائیت اللہ ٹائیگر کا نام ہمت، حوصلے اور جذبہ حب الوطنی کی زندہ مثال کے طور پر سامنے آتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی عنایت اللہ نے 1998 میں بطور کانسٹیبل خیبرپختونخوا پولیس جائن کی جبکہ سال 2000 میں بم ڈسپوزل سکواڈ کا حصہ بن گئے، عنایت اللہ نے اپنے کیریئر کا پہلا بم سال 2001 میں ناکارہ بنایا 21 سال کے اس مشکل اور کٹھن میں متعدد بار عنایت اللہ زخمی بھی ہوئے مگر کسی بھی موقع پر عنایت اللہ ٹائیگر کا حوصلہ پست ہوا نہ ہی بم ناکارہ بناتے وقت کبھی زخمی ہاتھوں میں کپکپاہٹ کا احساس ہوا۔
عنایت اللہ ٹائیگر نے جب بم ڈسپوزل سکواڈ کا حصہ بن کر کام شروع کیا تو ایک موٹر سائیکل، بیگ میں موجود ایک خنجر، پستول اور بارودی مواد کے ساتھ جڑی تاریں کاٹنے کے لئے ایک کٹر، ان اوزاروں کے سہارے محض جذبہ ایمانی ، شوق شہادت اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر مختصر عرصہ میں 150 سے زائد مختلف اقسام کے بم ناکارہ بنا ڈالے یہی وجہ تھی کہ بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے ستائے ڈیرہ اسماعیل کے باسیوں نے عنایت اللہ کو نہ صرف ایک مسیحا اور ہیرو کے طور پر جانا بلکہ انکی جاں فشانی کے جذبے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں "ٹائیگر” کے ٹائٹل سے بھی نواز دیا۔
اکیس سال کے کیریئر کے دوران عنایت اللہ ٹائیگر مختلف نوعیت کے 3 ہزار سے زائد بموں، خود کش جیکٹس ، راکٹ لانچرز، دستی بموں اور دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بنا چکے ہیں۔
اپنے کیریئر کے دوران عنایت اللہ ٹائیگر ہمیشہ سے ہی شرپسندوں کے نشانے پر رہے اور متعدد بار زخمی بھی ہوئے۔سال 2012 میں پیش آنے والے ایک حادثہ کے دوران عنایت اللہ ٹائیگر کا بایاں بازو بری طرح متاثر ہوا جبکہ سال 2014 کے دوران ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں عنایت اللہ ٹائیگر کی ٹانگ کٹ گئی مگر عنایت اللہ ٹائیگر عزم و ہمت کے ساتھ مصنوعی ٹانگ کے ساتھ آج بھی اپنے ہم وطنوں کی جانوں کے تحفظ میں پیش پیش رہتے ہیں۔
۔
سال 2014 میں شدید زخمی ہونے کے باوجود عنایت اللہ ٹائیگر نے کبھی اپنی مصنوعی ٹانگ کو فرض کی ادائیگی میں آڑے نہیں آنے دیا اور صحت مند ہوتے ہی دو مہینے کی سخت فزیکل ٹریننگ کے بعد دوبارہ ناصرف بم ڈسپوزل سکواڈ جائن کیا بلکہ سال 2014 سے اب تک 82 بم ناکارہ بنا چکے ہیں۔
عنایت اللہ ٹائیگر لگن، تجربے اور مہارت کے باعث خیبر پختونخوا پولیس میں ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں، عنایت ٹائیگر کو مخصوص صورتحال کے پیش نظر نہ صرف خیبر پختونخوا کے سرکاری و نجی اداروں اور یونیورسٹیز میں لیکچرز کے لئے مدعو کیا جاتا ہے بلکہ دیگر صوبوں میں بھی بم ڈسپوزل اہلکار عنایت اللہ ٹائیگر کے تجربے سے مستفید ہو رہے ہیں۔
ملک وقوم کی عظیم خدمات کے اعتراف میں عنایت اللہ ٹائیگر کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے پانچ لاکھ روپے نقد جبکہ حکومت کی طرف سے صدارتی تمغہ شجاعت سےبھی نوازا گیا تاہم عنایت اللہ ٹائیگر کا کہنا ہے کہ ہم وطنوں کی طرف سے ملنے والی محبت، دعائیں اور پیار اس کے لئے سرمایہ حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔