جذباتی سیاست نہیں معیشت مستحکم چاہیے، تجزیہ، شہزاد قریشی
(تجزیہ شہزاد قریشی)
دنیا 2023ء کو الوداع کہنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ 2024ء میں دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں صدارتی نظام ہے وہاں بھی الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور ان ممالک میں بھی جہاں پارلیمانی نظام ہے وہاں بھی۔ پاکستان میں 2024ء الیکشن کا سال ہے۔ دنیا کے ممالک کی توجہ معیشت پر ہے امریکہ سمیت دنیا کی توجہ اپنے شہریوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہے عوام اور ریاستی مسائل کے خاتمہ پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے
ملک میں انتخابی شیڈول کے ساتھ ہی سیاسی گہما گہمی عروج پر پہنچتی جا رہی ہے پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی سمیت مذہبی جماعتیں بھی الیکشن میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں وزارت عظمیٰ کی دعویدار تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس بار نوزائیدہ سیاسی جماعتیں بھی میدان میں ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کو خیر آباد کہہ کر اپنی سیاسی جماعتیں بنالی ہیں ان نوزائیدہ سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی میں رہ کر اقتدار کے مزے لئے اور اب سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر دوبارہ مزے لوٹنے کے لئے پرتول رہی ہیں۔ عوامی خدمت کی دعویدار تمام سیاسی جماعتیں ہیں مگر خدمت کا عالم یہ ہے کہ عوام بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے بیزار ہیں موسم گرما میں بجلی اور موسم سرما میں گیس کی لوڈشیڈنگ یہ عوامی خدمت کا پہلا تحفہ عوام سالوں سے بھگت رہے ہیں یہ بات تو طے ہے کہ کسی سیاست جماعت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہوگی ایک مخلوط حکومت کے لئے عوام تیار رہیں۔ تاہم نوازشریف نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے آواز بلند کی ہے نوازشریف معیشت کو ملکی اثاثہ قرار دے رہے ہیں۔ عوام کو الیکشن سے قبل معیشت کو مستحکم کرنے کے اقدامات سے آگاہ کریں کہ وہ معیشت کو کس طرح مستحکم کریں گے کسی بھی ملک کی مضبوط معیشت ملازمتوں کی تخلیق مہنگائی میں کمی کا باعث بنتی ہے بلاول بھٹو نے پشاور میں دوبارہ روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ لگایا ہے ان کے پاس معیشت کو مستحکم کرنے کا کیا پلان ہے ملک میں پڑھے لکھے نوجوان بیروزگار ہیں۔ عوام بنیادی ضروریات زندگی سے کوسوں دور ہیں ملکی معیشت کو اس وقت انقلابی اصلاحات اور قیادت کی ضرورت ہے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملکی وسائل پر بھرپور توجہ دے پوری دنیا میں اقتصادی ترقی کی دوڑ لگی ہے جذباتی اور نعرہ بازی کی سیاست سے نکل کر معیشت کے حوالے سے عملی اقدامات کئے جائیں۔