حاسد ۔۔۔ شفق افضال

0
96

شاہین صاحب کے چار بیٹے تھے
چاروں بہت نیک اور صالح تھے ۔جوان ہونے پہ تینوں بیٹوں کی باری باری شادیاں کردیں گئی ۔تینوں بہوئیں بہت اچھی تھیں۔مل جل کر رہتی تھیں ۔گھر میں اتفاق تھا خرچہ بھی مشترکہ چلتا تھا ۔کم زیادہ کا کوئی جھگڑا نہ تھا ۔
لیکن ساتھ والی ہمسائی جب یہ سب دیکھتی تو اس کا دل بہت جلتا ۔
وہ اکثر ان کے گھر جھگڑا کروانے کی خواہش کرتی لیکن منہ کی کھاتی ۔کیونکہ اس کی اپنی دیورانیوں جیٹھانیوں سے بنتی نہ تھی ۔اکثر ایک دوسرے سے نفرت کرتی تھیں ۔
شاہین صاحب کا چھوٹا زیادہ پڑھا لکھا تھا ۔اس کی جاب لگی تو بہت اچھی تھی سو کمائی بھی زیادہ تھی ۔
اس کی شادی ہوئی تو اس کی بیوی بھی سب میں گھل مل گئی ۔جس سے ہمسائی کے حسد میں مزید اضافہ ہوگیا ۔
اس نے چھوٹی پہ کام شروع کردیا ۔
اس نے اسے احساس دلایا کہ تمہارا میاں سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور زیادہ کماتا ہے ۔
لیکن تم دو ہی لوگ ہو ۔خرچہ سب سے کم ہے جبکہ باقی بھائیوں کے تو بچے بھی ہیں خرچے بھی سو طرح کے ۔تم کیوں ساتھ مل کر رہتی ہو ۔تم بےوقوف ہو ۔کمائے تمہارا میاں اور عیش سب کے ۔
پہلے تو چھوٹی بہو نہیں مانی لیکن آہستہ آہستہ جیسے اسے بھی احساس ہونے لگا کہ واقعی ایسا ہی ہے ۔ہمسائی کا حسد کام کرنے لگا اور وہ گھر والوں سے دور ہونا شروع ہو گئی ۔
گرمیوں کی دوپہر میں جب اس کا میاں آموں کی پیٹی لایا تو سب افراد میں برابر تقسیم کرنے کی وجہ سے اس کی فیملی کو چار آم ملے
جبکہ دوسرے بھائیوں کے بچوں کی وجہ سے زیادہ حصے میں آئے ۔
جس سے اس کا دل جل کر راکھ ہوگیا ۔اگلے دن دوسرا بھائی جب سیب لے کر آیا اس کے بچے سب سے زیادہ تھے سو سب سے زیادہ اسی کی فیملی کو ملے ۔اس بات کو اس نے اتنا محسوس کیا کہ اپنے میاں سے بات کی ۔
اس نے کہا چیز آپ لائیں ہمیں تب بھی کم ملے دوسرے لائیں ہمیں تب بھی کم ملے آخر کیوں؟
اس کا میاں حیران تھا کہ اسے کیا ہوا ۔جب اس نے بات کی تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے کیونکہ وہ تو بہت ہی خار کھائے بیٹھی تھی اس نے صاف کہا کہ اب اس کا گزارا نہیں ۔
اسے الگ گھر چاہیے۔یا کم از کم گھر میں دیوار کھڑی کروا کر اس کا پورشن الگ کر دیا جائے ۔
چھوٹا بیٹا سراج بلوچ بہت پریشان تھا اس نے اپنی بیوی کو بہت سمجھایا لیکن وہ مانتی ہی نہ تھی ۔دراصل ہمسائی اسے مسلسل اکسا رہی تھی ۔جب ان کے گھر سے شوروغوغا اٹھتا تو وہ بہت محظوظ ہوتی ۔کیونکہ پہلے پورے محلے میں انھیں کے گھر سے لڑائی جھگڑے کی آوازیں اٹھتی تھیں کیونکہ وہ اپنی دیورانیوں جیٹھانیوں کو چین سے نہ رہنے دیتی تھی اور ہر وقت بہتان بازی حتی کہ ہاتھا پائی بھی ہوجاتی تھی ۔اب شاہین صاحب کے گھر سے بھی آئے دن آوازیں اٹھتی تھیں ۔جو اسے سکون دیتی تھیں ۔سو وہ جلتی پہ تیل ڈالتی رہتی ۔
ایک دن کہنے لگی دیکھو تمہارے میاں کی تنخواہ بڑھ چکی ہے تم لوگوں کا بچہ بھی کوئی نہیں سو خرچہ وہی ہے سو یہ بڑھی ہوئی تنخواہ بھی انھیں پہ خرچ ہو جاتی ہے تمہیں کیا فائدہ ؟
میری مانو یہاں سے کچھ نہیں ملنا تم گھر کو آگ لگا دو پھر خود ہی تمہارا میاں کہیں اور لے جائے گا تمہیں ۔
چھوٹی بہو تو اب ہر وقت انھیں سوچوں میں رہتی تھی اس نے کچھ نہ سوچا اور تیار ہو گئی ۔سو ہمسائی نے وعدہ کیا کہ پٹرول وہ لادے گی ۔
ایک رات جب سب کھانا کھا کر سو گئے ہمسائی نے اسے میسج کر کے باہر بلوایا اور کہا کہ بس کام ہوگیا ۔اس نے اس کی جیٹھانی کے کمرے کے سامنے کچھ تیل ڈال دیا اور کچھ باہر دروازے میں ۔آگ ہمسائی نے لگانی تھی پھر بہو نے شور مچانا تھا ۔
سو پلان کے مطابق ہمسائی نے پہلے اس کی جیٹھانی اور پھر باہر دروازے میں آگ لگا دی اور بہو نے شور مچا دیا ۔سب اٹھ کر باہر کو بھاگے ۔ادھر چھوٹی بہو کے خاوند اور دیگر لوگ بھی کچھ لپیٹ میں آئے اور جسم کا کچھ حصہ ان کا بھی جل گیا۔لیکن شکر ہے زیا دہ نقصان نہیں ہوا آگ پر جلد ہی قابو پا لیا گیا ۔
ادھر جب چھوٹی بہو جو بہت گبھرا گئی تھی اس نے خود زدہ سی نظروں سے ہمسائی کو دیکھا تو وہ کھڑی مسکرا رہی تھی جس سے چھوٹی بہو فورا ساری بات سمجھ گئی اور پچھتا نے لگی ۔
جب سب گھر والے اندر آئے تو وہ سب سے معافی مانگنے لگی اور سب کو بتایا کہ یہ سب ہمسائی نے اپنے حسد میں کروایا ہے مجھ سے ۔سب حیران اسے دیکھ رہے تھے ۔
پھر اس کے رونے کی وجہ سے شاہین صاحب اٹھے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا جو ہوا بھول جاؤ آئندہ دوست دشمن کی پہچان رکھو ۔
اگر آپ غور کریں تو یہ کہانی ہمارے پاکستان کی بھی ہے ۔
یہاں صوبایت پھیلا کر پا کستان کو ٹکڑے کرنے کی سازش کی گئی ۔بلوچستان میں ایسے ہی بھارت نے کھیل کھیلا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ جلد ہی بلوچی بھائی بھی سمجھ گئے ۔اور پاکستان محفوظ ہو گیا۔
پاکستان ہوں ہی اللہ کی رحمت میں رہے گا اور دشمن منہ کی کھاتا رہے گا ان شا اللہ

Leave a reply