جھلک رہا ہے ہمارا لہو شگوفوں سے

رُخ بہار پہ یہ بانکپن یونہی تو نہیں

جشن آزادی۱۴ اگست۱۹۴۷ کی یاد تازہ کرتے چلیں۔۔۔

تحریر: ساجدہ بٹ

میرا دلکش وطن لہلہاتا چمن قربان ہے اس پر ہمارا من و تن سرحدوں پر کھڑے ہیں وطن کے سپاہی کہ کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھے میرے وطن کو کیوں کہ شامل ہے اس میں میرے آباؤ اجداد کی قربانی۔۔۔۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ برصغیر پاک وہند میں دو قومیں آباد تھیں جن کا نسب العین ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا۔۔۔۔
ایک طرف انگریز کی نظر میں مشکوک تھے تو دوسری جانب ہندوؤں کی مخالفانہ اقدامات کی زد میں تھے۔
گویا مسلمان چکی کے دو پاٹوں میں پھنس چکے تھے اور ان کے وجود کو شدید قسم کے خطرات لاحق تھے ان حالات میں لامحالہ مسلمانوں میں اپنے وجود کی بقا کی خاطر قومی وحدت کا وہ احساس اُجاگر ہونے لگا جو مدت سے ان کے لاشعور میں پنہاں تھا۔پھر اس الگ قومی تصور کی بنیاد پر انہوں نے ایک متحد اور منظم جدوجھد کا آغاز کیا تا کہ اپنی طرز زندگی اور ثقافت کو مٹنے سے بچایا جائے اور مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت کی جائے۔۔
ہندوؤں کے ظالمانہ اقدامات سے مسلمان اس حد تک مایوس ہو چکے تھے کہ وہ اپنے لیے الگ راستہ اپنانے پر مجبور ہو گئے اس مُشکِل گھڑی میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے مسلمانوں کو اتحاد،تنظیم اور فعالیت کی اشد ضرورت تھی۔
اس صورت حال اسلام ہی ان کے اتحاد کا موثر ذریعہ اور سہارا تھا اس لیے ہمارے قائدین نے اسلامی قومیت کی ترویج پر بھرپور توجہ دی۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے والے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح تھے
جن کے ذریعے لوگوں میں آزادی کا جذبہ پیدا ہونے لگا مسلمان آپ پر اعتماد کرنے لگے عوام کی بڑی تعداد مسلم لیگ پرچم تلے جمع ہونے لگی ۔۔۔۔
رفتہ رفتہ کئی قرار دادیں پاس ہونے لگی اور جلد ہی بڑی طاقت انگریز اور ہندوؤں کی سمجھ میں آ گیا۔ دو الگ نظریات کی حامل قومیں ایک ساتھ نہیں رھ سکتیں۔۔۔۔
بات مختصر کرتے چلیں۔۔۔۔۔
کہ اس پاک وطن میں جس ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہوا بلکہ آج جو ہم کشمیر کی حالت زار دیکھ رہے ہیں بلکل اسی طرح کی غلامی میں اسی طرح کی اجیرن زندگی ہمارے آباؤ اجداد بسر کر رہے تھے اسی طرح اپنے لاکھوں جگر گوشوں کو قربان کیا اسی طرح ہماری ماؤں بہنوں کی عزتیں نیلام ہوئیں کئی بہنوں کے سہاگ اُجڑ گئے خون کی ندیاں بھیں ۔۔۔۔۔
ہمارے بزرگوں نے آزادی کے حصول کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے جی قارئین کرام۔۔۔۔۔
بلکل بلکل بلکل اسی طرح جیسے آج کشمیر میں خون بہہ رہا ہے آزادی کے لیے تڑپ رہا ہے پر کوئی سننے والا نہیں ۔۔۔
میرے عزیز ہم وطنو یہ ہی حال ہمارے آباؤ اجداد کا کیا گیا تھا وہ بھی اس طرح سسک رہے تھے لیکن اُن میں متحدہ اور منظم ہونے کی خوبی پائی گئی تھی
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے
اُس وقت مسلمان پرامید تھے اور ساتھ ہی ساتھ
ایک سچا اور امانت دار لیڈر مل گیا تھا جسے ذاتی مفادات سے کوئی غرض نہیں تھی جسے شہرت نہیں چاہیئے تھی جسے دولت نہیں چاہئے تھی جسے صرف اقتدار نہیں پیارا تھا۔۔۔۔
اُس عظیم الشان لیڈر کو تو بس مظلوم کا ساتھ دینا تھا مظلوم کا بازو بننا تھا حقوق انسانیت سے دنیا کو آگاہ کرنا تھا صرف سیاست جیسی آنکھ مچولی نہیں کھیلنی تھی ۔۔۔۔۔۔
بلکہ ڈٹ گئے اپنے مقصد میں لگا جان کی بازی پھر حاصل ہوا یہ پیارا وطن جس میں اب ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں دنیا کو فخر سے بتاتے ہیں کہ

سنو دُنیا والو!!!!!!…………
ہم ہیں پاکستانی ہم ہیں آزاد ملک کے باسی۔۔۔۔۔۔
آج اگر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو قائد اعظم محمد علی جناح جیسا لیڈر تلاش کرنا ہو گا ویسی متحد قوم بننا ہو گا جیسی 14 اگست1947 کے وقت تھی پھر دیکھیں کیسے ہوتا ہے بحران آٹے کا ،کیسے چینی ذخیرہ ہوتی ہے ،کیسے قیمتوں میں اضافے ہوتے ہیں کیسے جرأت ہوتی ہے قوم کے افراد کی کہ وہ مہنگائی کریں پیٹرول چھپا لیں ۔۔۔۔۔
قائد اعظم محمد علی جناح جیسا لیڈر ہو تو کیونکر ممکن ہے کشمیر آزاد نہ ہو ،کیونکر ممکن ہے کہ کشمیر پاکستان نہ ہو
بس افسوس کہ اُن کے بعد اُن جیسا لیڈر نہیں مل پایا ورنہ مظلوم کا آج یہ حال ہر گز نہ ہوتا ۔۔۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی یاد میں شعر عرض ہے۔۔۔

کوئی تصویر نہ اُبھری تیری تصویر کے بعد

ذہن خالی ہی رہا کاسہ سائل کی طرح
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ میرے وطن کی رونقیں سلامت رہیں پاکستانیوں میں متحدہ و منظم رہنے کی توفیق عطا فرما میرے وطن کو دشمنوں سے محفوظ فرما یا رب العزت میرے وطن کے رکھوالوں کی حفاظت فرمانا آمین ثم آمین یا رب العالمین

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

(جہد مسلسل)

Shares: