جھوٹ ہمارے معاشرے کا ناسور…!!!
تحریر:جویریہ بتول
ایک بہت ہی گھٹیا اور اخلاقی برائی جو ہماری نجی زندگیوں سے لے کر سماجی رویوّں میں اس حد سرایت کر چکی ہے کہ ہمیں اس کے مضر اور انتہائی منفی اثرات کا احساس تک نہیں ہوتا…!!!
بحیثیت مسلمان ہمیں تو اور ہی زیادہ اس برائی سے بچنے کی تعلیم ملی ہے:
اللّٰہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
"بے شک اللّٰہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا،جو جھوٹا اور منکر حق ہے…”(الزمر)۔
کبھی فرمایا:
"اور چاہیئے کہ جھوٹی بات سے پرہیز کرو…”(الحج)۔
کبھی فرمایا:
"اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ…”(التوبہ)۔
احادیث میں جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔
شرک،عقوقِ والدین کے بعد بڑا کبیرہ گناہ کہا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بار بار جھوٹ سے بچنے کی تاکید کی…
ایک مجلس میں بار بار یہ بات دہراتے جاتے کہ جھوٹ سے بچو اور جھوٹی گواہی…
صحابہ حیران ہوئے کہ شاید آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہی بات دہراتے رہیں گے(صحیح بخاری)۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو نفاق کی ایک خصلت قرار دیا کہ منافق کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے…(صحیح بخاری)۔
سنی سنائی باتیں آگے پھیلانے والوں،تحقیق سے دامن بچانے والوں کو بھی جھوٹے شمار کیا گیا ہے…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دے…”(صحیح مسلم)۔
لیکن آج ہم جس طبقہ کا بھی جائزہ لے لیں،جھوٹ عام ہے…
وہ سیاسی ہو یا کاروباری…
مذہبی ہو یا معاشرتی…
انفرادی ہو یا اجتماعی…
ہم جھوٹ کی آمیزش سے ہر معاملہ کو آلودہ کر دیتے ہیں…
تاجر جھوٹ کی بنیاد پر جھوٹی قسمیں کھا کھا کر کاروبار کرتا ہے…
سیاست کے میدان میں جھوٹے وعدے کر کے ان سے مکر جایا جاتا ہے…
عدالتوں میں جھوٹی گواہی کے لیئے لوگ تیار ہو جاتے ہیں…
جھوٹ کی بنیاد پر مخالفین کو پھنساتے اور مقدمات بنا دیتے ہیں…
ذاتی زندگی کے حوالے سے جھوٹ کی بنیادوں پر ہوائی قلعے اور جھوٹے سٹیٹس بناتے ہیں…
جو آہستہ آہستہ رازوں سے پردہ اٹھا کر شرمندگی کا باعث بنتے ہیں…!!!
کیوں نہ خود کو سیدھے اور صاف طریقے سے متعارف کروا کر تمام اُلجھنوں کو سلجھا دیا جائے…
جو ہوں بس اس پر فخر کرنے کی عادت رہے…دنیاوی مال و متاع کم ہو یا زیادہ یہ بڑائی کا کہیں بھی معیار نہیں بتایا گیا…
ہاں دنیا کی زینت ضرور ہے…اور اسے بھی اپنے لیئے صدقہ جاریہ بنانا چاہیئے…
اپنے بارے میں جھوٹ پر مبنی مصنوعی اونچائی والا تعارف نہیں دینا چاہیئے…
اس طرح کہیں رشتہ مانگنے چلے جائیں تو درست اور سچی معلومات دینے سے گریز کیا جاتا ہے…
کہیں کسی سے کوئی رہنمائی چاہی جائے تو ملاوٹ دکھائی دے گی،اخلاص اور سچ کی بنیاد پر کوئی بات کرنے پر تیار نہیں ہو گا…
کسی سے جھوٹی باتیں منسوب کر دینا عام ہے…
بدگمانی اور حسد کی بنیاد پر تہمتیں لگانا…
اور بدگمانی کو سب سے بڑا جھوٹ کہا گیا ہے…!!!
اولاد والدین کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں اور درِ پردہ بہت کچھ منفی جا رہا ہوتا ہے…
بلکہ بعض اوقات میاں بیوی جیسا قربت والا رشتہ بھی جھوٹ اور دھوکے پر مبنی دکھائی دیتا ہے اور اپنا اپنا مفاد بس…
سچ ہمیشہ سکوں،راحت اور دل کا اطمینان دیتا ہے اسی لیئے حدیث میں سچ کو اطمینان کہا گیا اور جھوٹ کو شک کا سبب…
سچ بول کر انسان ہواؤں کے سنگ آزادی سے اُڑ سکتا ہے…
جبکہ جھوٹ پر ضمیر ملامت کرتا رہتا ہے…
سچی بات میں اگر وقتی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑ جائے لیکن اس کے روشن اثرات بدیر سہی اثر انداز ضرور ہوتے ہیں…
ہم صرف جھوٹی انا کے قیدی بن جاتے ہیں اور سچ کا اعتراف و اقرار گراں محسوس ہوتا ہے…
حالانکہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے…(صحیح بخاری_کتاب الادب)۔
سچ ایک بار بولنا پڑتا ہے اور اس کی تصدیق کی راہیں اللّٰہ تعالٰی خود ہی ہموار اور آسان کر دیتا ہے جبکہ جھوٹ بار بار بولنا پڑتا ہے…
یہ ہر موڑ پر ہر انداز میں وضاحتیں مانگتا ہے اور دامن میں سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں بچتا…
پچھلے دنوں بہت سی بہنوں کے ساتھ لکھنے کے حوالے سے واقعات پیش آتے رہے جو انہوں نے دلچسپی کے لیئے شیئر بھی کیئے کہ ان کی تحاریر کو دوسرے لوگوں نے من و عن کاپی کر کے اپنے نام سے شائع کیا،جب وضاحت مانگی گئی تو دھڑلے سے کہتے کہ نہیں یہ چیز ہماری ہے…
مذید سمجھایا گیا تو مان گئے مگر جھوٹی وضاحتیں دے دے کر تھکے اور شہرت کا طعنہ دیتے ہوئے بھڑاس نکالی…
حالانکہ شہرت کے رسیا تو وہ لوگ ہیں جو کسی کی محنت اور کاوشوں کو محض ایک کلک سے اپنے نام کر لیتے ہیں اور جھوٹی داد کے حقدار بنتے ہیں…
یقیناً اس پر اُن کا ضمیر انہیں ملامت بھی کرتا ہو گا…؟
اگر کسی کی چیز ہمیں بہت ہی پسند آئے تو ہمیں چاہیئے کہ ہم خیانت سے بچتے ہوئے…دل ذرا بڑا کر کے اس چیز کو اس کے لکھنے والے کے نام سے ہی آگے کر دیں،تب ثواب کے مستحق بھی رہیں گے اور خیانت کے ارتکاب سے بھی بچ جائیں گے…
اور حقیقی محنت کار کے لیئے کسی پریشانی کا باعث بھی نہیں بنیں گے… ورنہ تو نیکی برباد گناہ لازم والی صورت حال ہی ہو گی ناں…
آج کل سوشل میڈیا نے اس بات کو اور ہی آسان بنا دیا ہے اور آگے کا پیچھے،پیچھے کا آگے اور رد و بدل کا کام سیکنڈز میں کر لیا جاتا ہے…
ایک انتہائی بہترین قلم کار بہن بتا رہی تھیں کہ میں نے ایک دفعہ شاعری کے مقابلے میں اپنی شاعری بھیج دی تو آگے سے جواب آیا یہ تو کاپی ہے…
یعنی ان کی شاعری پہلے ہی چوری ہو کر مقابلے کی زینت بن چکی تھی…!!!
اُن کے بقول جب اپنے پاس موجود پوسٹرز تصدیق اور ثبوت کے لیئے بھیجے تو تب بات ان کی سمجھ میں آئی کہ معاملہ کیا ہوا؟
ایک اور دلچسپ واقعہ نے تو آنکھیں ہی کھول دیں کہ ایک محترم نے ایک صاحب کا کالم اٹھا کر آٹھ دس اخبارات میں بڑے فخر سے اپنے نام کے ساتھ چھپوا لیا…اور داد وصول کی…
یہ بہت بڑی ادبی خیانت ہے جس کا ادراک کرنے کی ہمیں ضرورت ہے…!!!
ہمیں چاہیئے کہ ہم ترقی کے جس زینے تک بھی پہنچ جائیں سچ اور امانت ہمارا زادِ سفر رہیں تبھی ہم ایک مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں اور وقار و مرتبہ بھی بنا سکتے ہیں…!!!
اس معاشرے میں اصلاح کے بیج کو بار آور ہوتا دیکھ سکتے اور رہبری کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں.
ہم جتنی دیر میں بے چینی کا سودا کرتے ہیں،اس سے ذرا زیادہ دیر سہی اطمینان اور حقیقی خوشی کی تجارت بھی کر سکتے ہیں…
فریب کی ملمع کاری اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہمارے اندر کے ایمان کو کھوکھلا کر دیتی ہے…
پھر ہم جھوٹ پر اُٹھتی عمارت سے کچھ وقت کے لیئے مستفید ہو بھی جائیں تو ایک بھاری جوابدہی کا بوجھ کندھوں پر ضرور لاد لیتے ہیں…!!!!!
ہمیں اپنی اور اپنی نسلوں کی اور اس معاشرے کی سچ اور انصاف کے اصولوں پر تربیت اور رہ نمائی کرنی ہے تاکہ معاشرہ میں مثبت سوچ، حقیقی تبدیلی،محنت اور شفافیت کے پھول کھِلیں…
ایسی امیں فضائیں چلیں کہ جہاں سانس لے کر دل گہرے سکوں کی وادی میں اُتر جائے اور اپنی معاشرتی سوچ پر بجا طور پر فخر محسوس کرنے لگے…آمین…!!!!!








