سیاستدان کا وقاراگر دائو پر لگ جائے تو اس کے پاس باقی کچھ نہیں رہتا۔ سیاستدانوں سے التجا ہے کہ اپنی روش پر نظرثانی فرمائیں۔ نظریات تو پہلے ہی سیاسی جماعتوں میں دفن ہو چکے۔ جمہوریت کے ساتھ بھی تاریخی ظلم کیا گیا کسی بھی سیاسی جماعت میں جمہوریت باقی نہیں بچی۔ اب سیاست بھی دائو پر لگ چکی ہے۔ اکثریت پارٹی سربراہوں کو چاپلوسوں، ضمیر فروشوں، حاشیہ برداروں کی ضرورت کیوں محسوس ہونے لگی ہے؟ شاید اس لئے کہ ان نام نہاد رہنمائوں نے جمہوریت کی آڑ میں جمہور کو نظرانداز کیا۔ ریاست اور جمہور کے بنیادی مسائل کو پس پشت ڈال کر ہوس اقتدار اور ہوس زر کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا۔ جس کا خمیازہ یہ خود اور ملک و قوم دونوں بھگت رہے ہیں۔ کیا ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی موجود ہے؟ کیا پارلیمنٹ کی بالادستی موجود ہے؟ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو کیا پی ڈی ایم والو ں نے دودھ اور شہد کی نہریں چلوا دیں ہرگز نہیں عوام کا حال تو یہ ہےکہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ اس صبح کی کرنوں سے کون سا خورشید طلوع ہوا ہے۔ کس کے گھر میں چولہا جلنے کی خوشخبری، کہاں بجلی اور گیس کا بحران حل ہوا کس شہر میں غنڈہ گردی کم ہوئی۔ چوریاں اور ڈکیتیاں کہاں کم ہوئیں۔ کیا وطن عزیز خود غرض سیاستدانوں، لینڈ مافیاز، غنڈوں اور لٹیروں کی آماجگاہ بن چکا ہے؟
خلاصہ یہ ہے کہ ریاست کے مسائل اور عوام کے مسائل کو دیکھا جائے تو ملک میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ملک و قوم کبھی دوعملی اور دوغلی پالیسی سے سرخرو نہیں ہو سکتی۔ آج ہر سیاسی جماعت میں دوغلی پالیسی کا راج ہے ملکی سیاسی گلیاروں میں ایک معجزہ ظہور پذیر ہوا ہے کراچی میں جماعت اسلامی نے کامیابی حاصل کی ہے جن لوگوں کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کراچی میں اور کراچی تک ہی اور بلدیاتی انتخابات تک محدود رہے گی کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی کامیابی کے اثرات پورے ملک آمدہ قومی انتخابات پر بھی پڑیں گے عوام کی اکثریت کا کراچی میں جماعت اسلامی پر اعتماد کسی معجزے سے کم نہیں۔ جماعت اسلامی افراد کی نہیں نظریات کی جماعت ہے۔ ایم کیو ایم کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے حیدر آباد سندھ کے دیہی علاقوں میں پیپلزپارٹی اور کراچی میں جماعت اسلامی کا راج ایم کیو ایم کی دوغلی پالیسی اور قیادت کا فقدان قرار دیا جا سکتا ہے۔