جنسی جرائم کی شرح بڑھتی چلی جارہی ہے، تحریر:ذیشان علی

حال ہی میں جنسی جرائم کے بہت سے واقعات رونما ہوئے اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے،
کچھ دن پہلے پیرودھائی کا واقعہ ایک مدرسہ کی طالبہ کو استاد کی طرف سے زیادتی کا نشانا بنایا گیا،
اس کی والدہ کے مطابق مدرسہ والوں نے گھر فون کر کے کہا کہ ان کی بیٹی مدرسے میں بے ہوش ہو گئی ہے اسے آ کے لے جائیں، والدین جب بیٹی کو گھر واپس لائے تو بیٹی نے ماں سے کہا کہ اسے استاد نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور وہ پہلے بھی کئی مرتبہ میرے ساتھ نازیبا حرکات کر چکا ہے،
ایسے میں پولیس استاد کو پکڑتی استاد نے عدالت سے 30 آگست تک عبوری ضمانت منظور کروا لی،
یہ نا سمجھ آنے والی بات ہے کہ ایسے افراد کو کیسے رعایت دی جاتی ہے لیکن حیرت کی بات بھی نہیں ہم قانون اور انصاف کے معاملے میں بہت سستی سے کام لیتے ہیں خاص کرکے جب کسی غریب کو انصاف فراہم کرنا ہو،
اور حال ہی ایک اور خبر سننے کو ملی کہ 65 سالہ شخص نے سات سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کی ہے،
دیکھئے ذرا غور تو کیجئے کہ 65 سالہ شخص نے سات سال کی بچی کو اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ بنا دیا ایسے لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا دینی چاہیے جو معصوموں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں میں تو کہتا ہوں انہیں معاشرے میں عبرت کا نشان بنا دیا جائے لیکن میں اکیلا کیا کروں جب تک یہ سسٹم ٹھیک نہیں ہوتا جب تک اس کے لیے سخت سے سخت قانون اور اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہوتا شاید تب تک ان جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا،
ہمیں ملک بھر روزانہ ایسے بیسوں واقعات سننے کو ملتے ہیں یہ تو وہ واقعات ہیں جو میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں ایسے کئی واقعات رونما ہوتے ہیں تم میڈیا تک یا آس پاس کے محلے تک یا پولیس تک نہیں پہنچ سکتے ہمارا ہاں ایک اور دستور ہے جو بہت زیادہ عام ہے کہ اگر کسی بیٹی کی عزت چلی بھی جائے تو گھر والے اپنی عزت بچانے کے لیے اس واقعے کو دبا دیتے ہیں کہ پورے خاندان میں ہماری بدنامی ہوگی اور بیٹی کو خاموش کرو دیتے ہیں،
اس میں اس بچاری کا تو کوئی قصور نہیں وہ تو معصوم تھی اور رہے گی اس میں ایسے درندوں کا قصور ہے جو معاشرے میں کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں خاندان اور گھر والوں کی طرف سے سخت ردعمل ان لوگوں کی عقل کو ٹھکانے لگا سکتا ہے بیٹی کی عزت چلے جانے پر خاموشی ایسے درندے اور بھیڑیوں کو مزید طاقت گویا حوصلہ فراہم کرتی ہے کہ چلو کوئی بات نہیں کسی اور کی بیٹی کے ساتھ ظلم کریں گے وہ بھی خاموش ہو جائیں گے، یہ لوگ کڑی سے کڑی سزا کے مستحق ہیں اور ان لوگوں کی تعلیم و تربیت میں ان کے والدین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،
کم سے کم انہیں معاشرے کے آداب تو سکھانے چاہیے کہ کسی کی بیٹی کسی کی بہن اپنی بہن اور بیٹی جیسی ہے جو ظلم وہ کوئی اپنی بہن کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتا وہ ظلم کسی دوسرے کی بہن کے ساتھ کیوں کرے،
اور ایک اور خبر کے متعلق بات کروں گا جو سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں رپورٹ ہوئی ڈکیتی کرنے والوں نے اس خاتون کے تمام اہل خانہ کے سامنے ایک عورت کو اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ بنایا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ظلم یہ درندگی ایک تو ان کے گھر میں گھس کے ان کا مال لوٹا دوسرا ان کی عزت بھی لوٹ لی،
یہ ہو کیا رہا ہمارے ہاں کون ایسے واقعات کو ہونے سے روکے گا؟ ریاست کو ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر قانون سازی کرنی پڑے گی میری اپنی رائے ہے کہ ایسے ظلم کرنے والوں کو کم سے کم موت کی سزا مختص کرنی چاہیے،
اور انہیں موت کی سزا بھی ایسی عبرتناک دینی چاہیے انہیں پھانسی دے کر چوکوں اور چوراہوں میں لٹکا دیا جائے ان کی لاشیں چوکوں اور چوراہوں میں لٹکی رہیں جب تک ان کا گوشت چیل کوے نوچ نوچ کر کھا نا لیں،
ان کے اہل خانہ کے لیے بھی عبرت ہو جو ایسے درندوں کی پشت پناہی کرتے ہیں انہیں ایسے کام کرنے سے روکتے نہیں جب وہ قانون کی گرفت میں آئیں تو انہیں بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں،
جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ظلم اور ان کے جرائم اہل خانہ کے علم ہوتے ہیں مگر وہ انہیں روکنے کی کوشش نہیں کرتے،
دعا ہے کہ ہمارا معاشرہ ہمارا ملک ایسے جرائم سے پاک ہو جائے جو ہماری تباہی کا سبب بن سکتے ہیں،

@zsh_ali

Comments are closed.