جنسی زیادتی اور لبرلز کی منافقت . تحریر : نعمان سرور

پاکستان میں جب سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا دور آیا ہے تب سے زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے خواتین بچے چھوٹی بچیاں غرض کے ان درندوں سے تدفین ہونے والی لاشیں بھی نہیں محفوظ، پاکستانی سوشل میڈیا صارفین ہمیشہ سے اس معاملے پر متحرک نظر آتے ہیں ان ایشوز پر بات کرتے ہیں آواز بلند کرتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہیں پاکستان میں جو اس معاملے پر اپنی سیاست چمکاتے یا اپنا دھندہ رکتے نہیں دیکھ سکتے ہیں ان میں اکثریت ہے ہمارے دیسی لبرلز کی جو اپنے آپ کو کہتے تو لبرل ہیں معاشرے کو دکھانے کے لئے ایک ڈھونگ بھی رچاتے ہیں مگر حقیقت میں یہ لوگ زیادتی کرنے والوں کے ساتھی ہیں۔

کیسے ؟؟
چلئیے میں بتاتا ہوں، آپ لوگوں کو زینب زیادتی کیس یاد ہوگا اس کیس کے بعد ملک میں ایک رائے عامہ تشکل پا گئی تھی کے زیادتی کرنے والے کو سر عام سزا دی جائے لیکن یہ لبرل کا کارنامہ ہے اور پی پی اور ن لیگ میں چھپے ان عناصر کا کارنامہ ہے کہ یہ کام نہ ہوسکا ان لوگوں نے اس کی مخالفت صرف اس لئے کی کیونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو بیرون ممالک کے سامنے لبرلز بنا کر پیش کرتے ہیں خاص کر پیپلزپارٹی، اس کے بعد فیصل واوڈا ایک بل لے کر آئے جس میں زیادتی کرنے والے کے لئے عبرتناک سزائیں شامل تھیں جس کی مخالفت ان عناصر نے کی اور کہا گیا کے یہ سزائیں غیر انسانی سزائیں ہیں تو سوال یہ ہے کے وہ لوگ جو بچوں سے زیادتی کے بعد ان کا قتل کرتے ہیں کیا وہ انسان کہلانے کے لائق ہیں؟؟
یہ لبرلز ان کا ساتھ کیوں دیتے ہیں ؟؟ کیا کبھی آپ نے سوچا ہے؟؟ نہیں ؟

اس کی وجہ میں بتاتا ہوں زیادتی کے واقعات کا تعلق معاشرتی بے حیائی سے ہے جسے یہ لبرلز آذادی کا نام دیتے ہیں فحاشی اس کی بڑی وجہ ہے اور یہ لبرلز اور ان کا کاروبار اس سے منسلک ہے اس لئے یہ اس بات کو سننا ہی نہیں چاہتے ابھی حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے فحاشی اور عریانی کے خلاف ایک جملہ کہا تھا جس پر لبرلز میں صف ماتم بچھ گیا تھا اب کچھ لوگوں نے اس میں اس بات پر بھی اعتراض کیا کے چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں انہوں نے کونس فحش لباس پہنا ہوتا ہے ؟؟؟ وزیر اعظم اس بات کا جواب دیں اور اس بات پر کافی مذاق بنایا گیا اس کا جواب یہ ہے ہر زیادتی کا واقعہ فحاشی سے نہیں جڑا ہوتا لیکن اگر آپ اس کی جڑ تک جائیں تو بات فحاشی پر آ کر ہی رکتی ہے، کوئی شخص اگر مسلسل غلط چیزیں دیکھ رہا ہے تو اس میں جنسی خواہشات بڑھ جاتی ہیں پھر وہ انہیں پورا کرنے کے لئے ہر حد سے گزر جاتا ہے وزیر اعظم نے کبھی یہ نہیں کہا کے ایسا کرنے والا شخص بے قصور ہے بلکے وزیراعظم نے تو ان کے لئے سخت سزاؤں کا مطالبہ کیا جسے یہی طبقہ غیرانسانی قرار دیتا ہے۔

ابھی حال ہی میں اسلام آباد میں ایک لڑکی کا قتل ہوا ہے جو اپنے دوست کے گھر بغیر شادی نکاح کے اس کے ساتھ رہ رہی تھی،لبرل اسے آذادی کا نام دیتے ہیں کے اس کی زندگی اس کی مرضی اس لڑکی کو اس کے دوست نے قتل کر دیا آپ سوچ سکتے ہیں اگر اس پر وزیراعظم یا کوئی شخص اس بات کا مطالبہ کر دے کے یہ ہمارے معاشرے کی اقدار کے خلاف ہے ایسے رشتے جنہیں رشتہ بھی نہیں کہا جا سکتا صرف مغربی معاشرے میں ہوتے ہیں اور اس سے اس معاشرے کی جو تباہی ہوئی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہیں امریکہ اور برطانیہ زیادتی اور آبارشن میں سہرفہرست ممالک میں آتے ہیں وہ الگ بات ہے ان کا میڈیا اس بات کو چھپاتا ہے۔ ایسی بات کرنے والے کا یہ لبرلز کیا حال کریں گے ؟؟؟
کیونکہ ان لوگوں کے نزدیک سزا بھی ان کی مرضی کی ہو۔۔۔ تعلقات بھی۔۔۔بیانات بھی۔۔۔قانون بھی اور سوچ بھی ان کی مرضی کی ہو یہ کہتے تو ہیں کے ہم آذادی رائے کا پرچار کرتے ہیں مگر ان کے سامنے آپ ان سے اختلاف کر کے دیکھیں ان سے بڑا انتہا پسند آپ کو نہیں ملے گا۔

زیادتی کے خلاف سخت اقدامات کا مطلب ان کے کاروبار کی بندش ہے اس لئے یہ لوگ جانتے بوجھتے زیادتی کرنے والوں کی مدد کرنے والے بنے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا صارفین ان کے خلاف متحد ہوں اور ملک پاکستان میں زیادتی کرنے والوں کے لئے عبرتناک اور جلد سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ ہمارا ملک ہے اور اس میں ہم نے اپنے آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے قانون سازی کرانے میں ایک پریشر گروپ کا کردار ادا کرناہے۔ اللہ ہم سب کا ہامی و ناصر ہو. آمین

@Nomysahir

Comments are closed.