جنسی زیادتی کا رجحان پچھلی تہذیبوں میں بھی پایا جاتا تھا.بڑھتا ہوا جنسی زیادتی کا رجحان معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا جارہا ہے.جنسی زیادتی ایک چھپا ہوا (جرم )عمل ہے جس میں کسی کی مرضی کے بغیر اسکو چھونا یا کوٸی ایسا عمل کرنا جو اگلے کو ناگوار گزرے یا اس میں اسکی رضامندی شامل نہ ہو .جنسی زیادتی جسمانی یا غیرجسمانی دو طرح کی ہوسکتی ہے.جنسی زیادتی ہر عمر کے لوگوں کے ساتھ کی جاتی ہے چاہے وہ بچہ ، جوان یا بوڑھا ہو.جنسی ذیادتی کسی شخص کہ یقین کو ٹھیس پہنچانا ہے.پھر وہ شخص ساری زندگی کسی پہ یقین نہیں کرسکتا ہر کسی کو ایک ہی نظر سے دیکھتاہے. اجکل جنسی زیادتی کا رجحان بڑھتاجا رہاہے.اور اسکی وجہ سوشل میڈیا کا استعمال،غربت،بیک گراٶنڈ،اسلام سے دوری اور بہت دوسری وجوہات ہیں .یہ مسٸلہ نہ صرف ترقی پذیر ممالک میں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی پایا جاتا ہے .جنسی زیادتی کسی کی طرف سے بھی کی جاسکتی ہے چاہے وہ اپکا باپ یا بھاٸی ہی کیوں نہ ہوں اپ کو نہ صرف باہر والوں سے بلکہ اپنے گھر والوں (رشتہ داروں ) سے بھی احتیاط کرنی چاہٸے جیسا کہ ٹی وی ، نیوزپیپر میں آۓ دن دیکھایا جاتا ہے کہ باپ یا بھاٸی نے بیٹی ، بہن کے ساتھ زیادتی کی .اسکی ایک یہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے جو لوگ اپنے بچوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں اور انکے بچے سمجھدار ہوں اور وہ لوگ انکے سامنے سیکس کریں تو اس سے انکے ذہن میں ایسے خیال آتے ہیں جو انہیں غلط کام کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں اور دوسری بات زیادتی کیلے عورت کو قصور وار ٹہرایا جاتاہے کبھی اسکے کپڑوں ، کبھی اسکے گھر سے باہر نکل کرکام کرنے کو . کون عورت ہوگی جو چاہے گی اسکی عزت داغ دار ہو . ظلم بھی عورت کے ساتھ ہوتا ہے اور قصور وار بھی اسے ٹہرایا جاتا ہے کیا کوٸی عورت چاہتی ہے کہ اسکی عزت کو پامال کیا جاۓ تو پھر عورت کو کیوں قصور وار ٹھرایا جاتا ہے .مرد ہمیشہ سے خود کو حاکم سمجھتا ایا ہے اور عورت کو کمتر سجمھ کر اپنے پیروں کی جوتی سمجھتا رہا ہے .شاید مرد عورت کی ترقی سے جل کر بھی انکو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں .جبکہ اسلام نے مرد کو بھی نظریں جھکانے کا حکم دیا ہے .سورت النور کی ایات نمبر٣٠ میں اللہ پاک کا فرمان ہے ”مسلمان مردوں سے کہہ دیجٸے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں“
@__fake_world __
جنسی زیادتی کا رجحان تحریر:ثمرہ مصطفی
