پاکستان میں صحافت از قلم: طارق محمود
پاکستانی صحافت اور ہماری ذمہ داریاں
گزشتہ روز دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافت کا عالمی دن منایاگیا. دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آزاد صحافت انتہائی مشکل ہے مذہبی، سیاسی، کاروباری، سماجی ، لبرل، اپوزیشن اور حکومتی حلقے صحافیوں کے منہ سے من پسند الفاظ ہی سننا چاہتے ہیں خواہش پوری نہ ہونے پر ذاتی طور پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے اگر اسی طرح من پسند الفاظ اور رپورٹنگ کے لئے صحافیوں کو مجبور کیا جاتا رہا تو معاشرے کو ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ معاشرے کی بیماریوں کو ٹھیک طرح سے جانے بغیر ان کا علاج ناممکن ہے اگر بیماری کا علاج ہی نہیں ہو گا تو وہ ناسور بن کر موشرہ ہی ختم کر دے گی اس لئے تمام معاشرتی طبقات اپنے اوپر ہونے والی جائز تنقید کو فراخدلی سے برداشت کریں دوسری طرف میں اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہوں کہ صحافتی برادری میں بھی ایسی کالی بھیڑوں کا دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو اپنے ذاتی فوائد اور دیگر مقاصد کے حصول کے لیے انصاف کا گلا گھونٹ رہی ہیں اور غیر جانبداری سے کام نہیں لیا جا رہا۔ آئیں آج کے دن عہد کریں کہ ہم صحافی برادری کو ان کا کام آزادی سے کرنے دیں گے اور اس ضمن میں ہونے والی جائز تنقید کو برداشت کریں گے من پسند الفاظ اور رپورٹنگ کی بجائے ملکی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا اور معافی بھی اپنے پیشے کا تقدس پامال نہیں ہونے دیں گے اور مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے جانبداری سے کام نہیں لیا جائے گا۔ تاکہ معاشرے کی اصل تصویر پیش کی جا سکے اور معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کا درست ادراک کرتے ہوئے ان کو ختم کیا جا سکے۔ جس سے پاکستان کا اسلامی اور فلاحی تشخص ابھر کر سامنے آئے۔