آپ نے شعبہ صحافت کے لئے کیا خدمات سر انجام دی۔۔؟

آپ نے شعبہ صحافت کے لئے کیا خدمات سر انجام دی..؟

تحریر:میاں عدیل اشرف

3مئی یوم آزادی صحافت کا دن جسے عالمی طور پر پوری دنیا میں صحافت کی آزادی کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ میرا ان سب صحافیوں سے سوال ہے جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے اور اب بھی موجود ہیں آپ نے جب سے صحافت کو جوائن کیا اپنی ذاتی شہرت، علاقے کی بہتری اور لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے تو کوشش کی ہو گی

آج تک آپ نے شعبہ صحافت کی بہتری کے لیے کیا خدمات سرانجام دی جس کے تحت آپ کی شخصیت کو مستقبل میں شاندار مثال دے کر یاد کیا جائے؟؟ کیا آپ نے اپنے علاقے میں پریس کلب بنانے کی جدوجہد کی، اگر پریس کلب موجود ہے تو کیا آپ نے اس میں شامل ممبران کی دوران ڈیوٹی حفاظت کے لیے کوئی جدوجہد کی۔

کیا آپ نے صحافیوں کے مستقبل کی بہتری کے لیے میڈیکل کی سہولت فراہم کروانے کی جدوجہد کی، صحافیوں کے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے کسی قسم کی کوئی ایسی سہولت فراہم کرنے کے لیے کوشش کی جس کے تحت ان کے بچوں کو مستقبل میں بہتر اور فری تعلیم مل سکے۔ جس کی بہت ضرورت ہے اور یہی خدمات ہیں جن کے ذریعے آپ کی ذات کو مستقبل میں یاد کیا جا سکتا کیونکہ کسی بھی شعبہ میں ہر اس شخص کو یاد کیا جاتا جس نے اس شعبے کے لیے کچھ ایسا کیا ہو جس سے اس شعبے سے وابستہ افراد کو فائدہ ہو رہا ہو ان افراد کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں مثال دے کر یاد کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے سوا تقریباً ہر ملک میں یوم آزادی صحافت کو صرف الفاظوں کی حد تک نہیں منایا جاتا بلکہ عملی طور پر ورکنگ صحافیوں کے لیے سہولیات فراہم کروانے کے لیے جدوجہد کرکےسہولیات حاصل کی جاتی ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں صحافیوں کی فلاح کے لیے ایساکچھ بھی نہیں کیا جاتا بلکہ حکومت کی جانب سے کسی نہ کسی طور پر کوئی ایسی پابندی ضرور عائد کر دی جاتی وہ آزادی سے سچ بول نہ سکیں حقیقت نہ دکھا سکیں اور سچ نہ لکھ سکیں۔

اس میں غلطی صرف حکومت کی نہیں بلکہ ان صحافتی تنظیموں ،پریس کلب سربراہان اور ان صحافتی اداروں کی بھی ہے جو دعوے تو صحافیوں کے حقوق دلانے کے کرتے ہیں لیکن سب کچھ دیکھ کر اپنی ہی صحافتی برادری پر پابندیوں اور جبر کے خلاف بولتے نہیں بلکہ انفرادی طور پر فوائد حاصل کرتے ہیں لیکن دیگر صحافیوں کے حقوق کو پامال ہوتے دیکھتے رہتے اور خاموش رہتے ہیں۔

صحافت کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی کہ صحافی ہی اپنے آپ کو مضبوط نہیں کرنا چاہتے۔ بہت سے ایسے صحافی حضرات بلکہ پورے کے پورے پریس کلب موجود ہیں جو حکومتی اداروں کے ترجمان، منشیات فروشوں، قحبہ خانوں، ملاوٹ کرنے والوں اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کی پشت پناہی کرنے کو صحافت سمجھتے ہیں اور جو صحافی کا اصل کام ہےاس کو کرنے سے پرہیز کرتے ہیں یہ ہیں وہ لوگ جو صحافت کی بربادی کی وجہ ہیں۔

شعبہ صحافت کے لیے بھی ایک ضابطہ اخلاق ہونا بہت ضروری ہے، پریس کلبوں میں نظم وضبط کے ذریعے ممبران کو شامل کیا جانا ضروری۔ جس کے تحت کام کرنے والے صحافی ہی شعبہ صحافت سے وابستہ رہیں نہ کہ ہر چھابڑی فروش، قصاب، ریڑی بان، دودھ فروش، وغیرہ جعلی صحافتی کارڈز کا استعمال کرکے اپنے کاروبار کو تحفظ فراہم کریں اورشعبہ صحافت کو بدنام کرتے پھریں، بلکہ صرف پڑھے لکھےصحافی ہی ملک کی علاقےکی بہتری کے لیے کام کریں تاکہ شعبہ صحافت کا وقار بڑھے۔

ایسا تب ہی ممکن ہے جب صحافی اپنے شعبہ کے لیے عملی طور پر کچھ کریں گے تاکہ آنے والے وقت میں ان کی صحافت کے لیے سرانجام دی گئی خدمات کو شاندار مثال کے طور پر جانا جائے۔ صحافیوں کو انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر سوچنے کی ضرورت ہے اپنے علاقے میں شعبہ صحافت کے لیے ضابطہ اخلاق بنانے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور صرف ان لوگوں کو ہی پریس کلب کی ممبر شپ دینی چاہیے جو اس کے اہل ہوں نہ کے ممبران کی تعداد بڑھانے کے لیے جرائم پیشہ افراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں اور خود ہی اپنے شعبہ کو برباد کریں۔

جن علاقوں میں پریس کلب موجود نہیں وہاں سرکاری طور پر پریس کلب ہونے چاہیے، کیونکہ پریس کلب کے بغیر صحافیوں کی کوئی عزت نہیں اس طرح صرف ان کے سر فروخت ہوتے ہیں جب پریس کلب ہوں گے وہاں ہر سال الیکشن ہوں گے تو پھر ان کے حقوق کے لیے کام بھی ہوں گے ان کو سہولیات بھی فراہم ہوں گی کیونکہ پھر عہدیدار وہی بنیں گے جو کچھ کر کے دیکھائیں گے۔

اس لیے تمام علاقائی صحافی سب سے پہلے اپنے علاقوں میں پریس کلب بنانے کے لیے جدوجہد کریں تاکہ آپ کا مستقبل بھی بہتر بن سکے اور اپ کےشعبہ کا وقار بھی بلند رہے۔

Leave a reply