جسٹس منصور علی شاہ کا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں عدم شرکت، چیف جسٹس کو خط

Mansoor Ali Shah

اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک تفصیلی خط لکھا ہے جس میں انہوں نے آرڈیننس اور کمیٹی کی تشکیل نو کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں واضح کیا کہ جب تک فل کورٹ اس معاملے پر مکمل جائزہ نہیں لے لیتی، وہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں نشاندہی کی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے جاری ہونے کے بعد فوری طور پر کمیٹی کی تشکیل نو کردی گئی، حالانکہ آرڈیننس میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ تشکیل نو لازمی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرڈیننس کے باوجود سابقہ کمیٹی اپنے کام کو جاری رکھ سکتی تھی اور اس حوالے سے کوئی معقول وجہ نہیں بتائی گئی کہ فوری طور پر یہ فیصلہ کیوں کیا گیا۔
خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے سابقہ کمیٹی کے رکن جسٹس منیب اختر کو ہٹانے پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے ہٹانے کی کوئی واضح وجہ نہیں بتائی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مشاورت کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ جسٹس منیب کے بعد والے سینئر جج کو بھی کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا، جس سے کمیٹی کی تشکیل میں شفافیت کے حوالے سے سوالات جنم لیتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں فل کورٹ میٹنگ بلانے کی تجویز بھی دی اور کہا کہ اس آرڈیننس کا جائزہ لینے کے لیے فل کورٹ میٹنگ بلائی جانی چاہیے تاکہ سب ججز اس معاملے پر اپنی رائے دے سکیں اور اس کے تمام قانونی پہلوؤں پر غور کیا جا سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب تک اس فل کورٹ میٹنگ میں یہ معاملات زیر غور نہیں آئیں گے اور چیف جسٹس سابقہ کمیٹی کو بحال نہیں کریں گے، وہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے آرڈیننس کے تحت کمیٹی کی تشکیل نو کے حوالے سے قانونی نکات اٹھائے اور کہا کہ آرڈیننس کمیٹی کی تشکیل نو کو لازمی قرار نہیں دیتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ فوری طور پر کمیٹی کی تشکیل نو کیوں کی گئی اور اس کے پیچھے کیا قانونی جواز تھا۔ ان کا موقف تھا کہ آرڈیننس کے باوجود کمیٹی اپنا کام جاری رکھ سکتی تھی اور اس کی تشکیل نو کی ضرورت نہیں تھی۔خط کے اختتام پر جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کی تشکیل نو کے حوالے سے فوری فیصلے کی وجوہات کو واضح کیا جائے اور اس عمل میں شامل ججز کی نظراندازی کے حوالے سے بھی وضاحت دی جائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شفافیت اور عدلیہ کی ساکھ کے لیے ضروری ہے کہ ان سوالات کا تفصیلی جواب دیا جائے۔یہ خط عدلیہ کے اندرونی معاملات اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے جاری تنازعے میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔

Comments are closed.