میری تربت بھی نہ ملے تجھ کو آنسو بہانے کے لیے
اب تجھے وقت میسر ہوا مجھ کو منانے کے لیے
تہی دامن کر دیا جب مجھے عشق نے تیرے
کیا دست سوال دراز پھر مجھے آزمانے کے لیے
میں اپنے راہ پہ گامزن تو اپنے مدار میں محو گردش
اب تو مراسم ہیں فقط دنیا کو دکھانے کے لیے
خطاء ہے گر کوئی میری تو الزام لگایے بھری بزم میں
یہ مناسب نہیں چپ ہو جائیے تعلق پرانے کے لیے
کب تلک تلخ اوقات رہیں گے بندائے مزدور کے یا رب
کب تلک خود کو بیچے گا غریب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے
حفیظ اللہ سعید
#نوائے_حفیظ
#سچیاں_گلاں