کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ،کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا

دیوتا ہے کوئی ہم میں نہ فرشتہ کوئی چھو کے مت دیکھنا، ہر رنگ اتر جاتا ہے
0
71
poet

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا

ندا فاضلی

نام مقتداحسن فاضلی اور تخلص نداؔ ہے 12 اکتوبر 1938ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ندا فاضلی دعاڈبائیوی کے صاحبزادے ہیں بی اے تک تعلیم حاصل کی بمبئی میں فلمی نغمہ نگاری کرتے ہیں ان کا شعری مجموعہ ’’لفظوں کا پل‘‘ کے نام سے چھپ گیا ہے ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں:

’’کھویا ہوا سا کچھ‘‘، ’’دیواروں کے باہر‘‘، ’’دیواروں کے بیچ‘‘(خود نوشت)، ’’شہر میرے ساتھ چل تو‘‘، ’’مورناچ‘‘(مجموعہ کلام)، ’’ملاقاتیں‘‘ (خاکے)۔ مہاراشٹر اردو اکادمی، بمبئی اور ساہتیہ پریشد ، بھوپال سے ان کی کتابوں پر انعامات ملے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق، صفحہ: 335

ندا فاضلی:
۔۔۔۔۔۔
سورداس کی نظموں سے
۔۔۔۔۔۔
شاعر بننے کی ترغیب حاصل ہوئی
۔۔۔۔۔۔
ٍیہ اس وقت کی بات ہے جب تقسیم کے بعد ان کا پورا کنبہ ہندوستان سے پاکستان منتقل ہو گیا تھا لیکن ندا فاضلی نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن جب وہ ایک مندر کے پاس سے گزر رہے تھے تبھی انہوں نے سورداس کی ایک نظم سنی جس میں رادھا اور کرشن کی علیحدگی کو بیان کیا گیا تھا۔ یہ نظم سن کر ندا فاضلی اتنے جذباتی ہو گئے کہ انہوں نے اسی لمحے فیصلہ کیا کہ وہ بطور شاعر اپنی شناخت بنائیں گے۔

12 اکتوبر 1938 میں دہلی میں پیدا ہونے والے ندا فاضلی کو شاعری وراثت میں ملی تھی۔ ان کے گھر میں اردو اور فارسی دیوان کے مجموعے بھرے پڑے تھے۔ ان کے والد بھی شعر و شاعری میں دلچسپی لیا کرتے تھے اور ان کا اپنا ایک شعری مجموعہ بھی تھا، جسے ندا فاضلی اکثر پڑھا کرتے تھے۔ ندا فاضلی نے گوالیار کالج سے گریجویٹ کی تعلیم مکمل کی اور اپنے خوابوں کو ایک نئی شکل دینے کے لیے وہ سال 1964 میں ممبئی چلے گئے۔ یہاں انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس درمیان انہوں نے دھرم يگ اور بلٹز جیسے اخباروں میں لکھنا شروع کر دیا۔

اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے ندا فاضلی تھوڑے ہی وقت میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دوران اردو ادب کے کچھ ترقی پسند مصنفین اور شاعروں سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں ندا فاضلی کے اندر ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا۔ انہوں نے ندا فاضلی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی اور انہیں مشاعروں میں آنے کی دعوت دی۔ ان دنوں اردو ادب کی تحریروں کی ایک حد مقرر تھی۔ آہستہ آہستہ فاضلی نے اردو ادب کی حدود کو توڑتے ہوئے اپنی تحریر کا ایک الگ انداز بنایا۔

ندا فاضلی مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے جس سے انہیں پورے ملک میں شہرت حاصل ہوئی۔ ستر کی دہائی میں ممبئی میں اپنے بڑھتے اخراجات کو دیکھ کر انہوں نے فلموں کے لئے بھی گیت لکھنا شروع کر دیئے لیکن فلموں کی ناکامی کے بعد انہیں اپنا فلمی کیریئر ڈوبتا نظر آیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ تقریباً دس برسوں تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کےبعد ندا فاضلی کی 1980 میں ریلیز فلم ’آپ تو ایسے نہ تھے‘ کے اپنے نغمہ ’تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے‘ کی کامیابی کے بعد بطور نغمہ نگار فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

اس فلم کی کامیابی کے بعد ندا فاضلی کو اچھی فلموں کے آفر ملنے شروع ہوگئے۔ ان فلموں میں ’بیوی او بیوی، آہستہ آہستہ اور نذرانہ پیار کا‘ جیسی فلمیں شامل ہیں۔ موسیقار خیام کی موسیقی میں آشا بھونسلے اور بھوپندر سنگھ کی آواز میں فلم آہستہ آہستہ کا یہ نغمہ ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا‘ ناظرین کے درمیان آج بھی بہت مقبول ہے۔ سال 1983 ندافاضلی کے فلمی کیرئیر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ فلم رضیہ سلطان کی تخلیق کے دوران نغمہ نگار جاں نثار اختر کی اچانک موت کے بعد فلمساز کمال امروہی نے ندا فاضلی سے فلم کے باقی گیت لکھنے کی پیشکش کی۔ اس فلم کے بعد وہ بطور نغمہ نگار فلم انڈسٹری میں قائم ہو گئے۔

شہنشاہ غزل جگجیت سنگھ نے ندا فاضلی کے لئے متعدد نغمات گائے جن میں 1999 میں آئی فلم ’سرفروش‘ کا یہ نغمہ ’ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے‘ بھی شامل ہے۔ ان دونوں فنکاروں کی جوڑی بہترین مثال ہیں۔ ندا فاضلی کے شعری مجموعوں میں مور ناچ، ہم قدم اور سفر میں دھوپ ہوگی اہم ہیں۔ ادب اور فلمی دنیا کو اپنے نغموں سے مسحور کرنے والے ندا فاضلی آٹھ فروری 2016 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

ندا فاضلی: ’
۔۔۔۔۔۔
دنیا جسے کہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
جادو کا کھلونا ہے
۔۔۔۔۔۔
جے پرکاش نارائن
۔۔۔۔۔۔
ندا فاضلی 12 اکتوبر 1938 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد شاعر تھے لہذا بڑے بھائی کے قافیہ سے ملا کر ان کا نام رکھا گیا مقتدیٰ حسن۔ ان کا بچپن اور لڑکپن مدھیہ پردیش کے گوالیار میں گزرا اور انہوں نے تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔

مقتدیٰ حسن بچپن ہی سے شاعری میں اپنے ہاتھ آزمانے لگے تھے اور ’ندا فاضلی‘ ان کا تخلص ہے۔ ندا کے معنی ہیں آواز اور فاضلی کشمیر کے علاقہ فاضلہ سے آیا ہے جہاں سے ان کے آبا و عزداد دہلی آئے تھے۔ ندا فاضلی کے اردو-ہندی ادب میں مکمل طور آنے کا سبب ایک حادثہ مانا جاتا ہے۔

کہتے ہیں وہ کالج میں تھے تو اپنے سامنے والی سیٹ پر بیٹھنے والی لڑکی سے انہوں نے یکطرفہ، انجانا اور انکہا رشتہ قائم کر لیا تھا۔ وہ آج کل کا دور نہیں تھا جہاں اظہار محبت بغیر شرم و حیا کر دیا جاتا ہے۔ تب تو اتنی بندشیں تھیں کہ احساسات کا اپھان سماجی بندھنوں کی دہلیز کو آسانی سے پار ہی نہیں کر پاتا تھا۔

ایسی ہی کیفیت میں مقتدیٰ حسن کے دل کے آنگن میں ایک بیج پھوٹ کر پودا بن گیا۔ اچانک کالج کے نوٹس بورڈ پر ایک نوٹ چسپاں ہوا جس نے ندا فاضلی پر بم کا سا دھماکہ کر دیا۔ انگریزی میں نوٹس بورڈ پر جو لکھا تھا اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے، ’کماری ٹنڈن کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی ہے۔‘ اس خبر سے ندا اندر تک لرز گئے اور بہت غمزدہ ہوئے۔ لیکن اپنی تکلیف کے اظہار کے لئے ان کے پاس نہ تو الفاظ تھے اور نہ ہی سلیقہ۔ انہوں نے جو کوچھ محسوس کیا اسے لکھنے کی کوشش کی لیکن اپنے دکھ کو پوری طرح ظاہر کرنے میں ناکام رہے۔

کافی جد و جہد کے بعد ایک بات انہیں سمجھ آئی کہ قصور الفاظ میں نہیں بلکہ لکھنے کے طریقہ میں ہے۔ وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں اس میں ایسا کچھ بھی نہیں جو ان کی اندر کی تکلیف کو نمایاں کر سکے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن جب وہ صبح کے وقت مندر کے پاس سے گزر رہے تھے تو کسی کو سورداس کے ایک بھجن گاتے سنا۔

بس پھر کیا تھا؟ مقتدیٰ کو لگا کہ ان کے اندر کی تکلیف ظاہر کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے۔ اس کے بعد تو ان پر کبیر داس، تلسی داس، سور داس، بابا فرید وغیرہ صوفی دور کے شاعروں کو پڑھنے کا جنون سوار ہو گیا۔ وہ جتنا ان شاعروں کو پڑھتے گئے، اس نتیجہ پر پہنچتے گئے کہ ان شاعروں کی سیدھی سادی بغیر لاگ لپیٹ کی دو ٹوک زبان والی تخلیقات بہت موثر ہیں بس یہیں سے ندا فاضلی ایک عظیم شاعر بننے کی راہ پر قدم بڑھا چکے تھے۔
بانگی دیکھیں:
خدا خاموش ہے! تم آؤ تو تخلیق ہو دنیا
میں اتنے سارے کاموں کو اکیلا کر نہیں سکتا
سادہ زبان ہمیشہ کے لئے ندا فاضلی کا طرز بیاں بن گئی۔ ہندو مسلم قومی فسادات سے تنگ آکر ان کے والدین پاکستان میں جا بسے لیکن ندا ہندوستان سے نہیں گئے۔ روزگار کی تلاش میں وہ کئی شہروں میں بھٹکے لیکن کام کہاں ملتا! شاعری چلتی رہی، دراصل قسمت نے ندا کے لئے کچھ اور ہی لکھا ہوا تھا۔
تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے
جہاں جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے…
ایسی نظموں تک ندا فاضلی یوں ہی نہیں پہنچے۔ بھوپال، الہ آباد، دہلی نہیں بلکہ ممبئی ہندی اور اردو ادب کا گڑھ تھا۔ سال 1964 میں ندا کام کی تلاش میں ممبئی پہنچ گئے۔ دھرم یُگ، بلِٹز، ساریکا جیتی میگزینوں کے لئے انہوں نے مضمون لکھنے شروع کئے، جلد ہی وہ شائع بھی ہونے لگے۔ ان کے آسان زبان والے اور موثر مضامین نے جلد ہی انہیں عزت اور شہرت دلا دی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ یہ ندا ہی کہہ سکتے تھے:
دیوتا ہے کوئی ہم میں نہ فرشتہ کوئی
چھو کے مت دیکھنا، ہر رنگ اتر جاتا ہے
ملنے جلنے کا سلیقہ ہے ضروری ورنہ
آدمی چند ملاقاتوں میں مر جاتا ہے
ندا کی زیر بحث کتابوں میں لفظوں کے پھول، مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، کھویا ہوا سا کچھ، آنکھوں بھر آکاش اور سفر میں دھوپ تو ہوگی، دیواروں کے بیچ، دیواروں کے باہر، ملاقاتیں، تماشہ میرے آگے شامل ہیں۔
انہوں نے کچھ عمدہ شاعروں پر لکھی کتابوں کو ادارت بھی کی جن میں بشیر بدر: نئی غزل کا نام، جانسار اختر: ایک جوان موت، داغ دہلوی: غزل کا ایک اسکول، محمد علی دہلوی: شبدوں کا چترکار، جگر مراد آبادی: محبتوں کا شاعر، کافی مشہور ہوئیں۔
اپنی ادبی خدمات کے لئے وہ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، قومی ایکتا ایوارڈ، مدھیہ پردیش حکومت کے میر تقی میر ایوارڈ، خسروں ایوارڈ، مہاراشٹر اردو اکادمی ایوارڈ، بہار اردو اکادمی ایوارڈ، اتر پردیش اردو اکادمی ایوارڈ، ہندی اردو سنگم جیسے متعدد ایوارڈوں سے نوازے گئے۔ فلمی نغموں کے لئے بھی انہیں کئی مرتبہ ایوارڈوں سے نوازا گیا تھا۔
بطور شاعر اور نغمہ نگار ندا فاضلی کا سفر کتنا شاندار تھا یہ ان کے گیتوں، غزلوں اور شاعری کو سن کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کمال امروہی جب فلم رضیہ سلطان بنا رہے تھے تو گیت لکھنے کی ذمہ داری جانسار اختر پر تھی، اچانک وہ انتقال کر گئے۔ جانسار اختر بھی گوالیار سے ہی تھے اور انہوں نے کمال امروہی سے صد فیصد درست اردو بولنے والے کے طور پر ندا کا ذکر کیا ہوا تھا۔
کمال امروہی نے جان نسار اختر کی بات کی قدر کرتے ہوئے ندا فاضلی سے رابطہ قائم کیا اور انہیں فلم کے بقیہ دو نغمے تخلیق کرنے کو کہا … اور پھر ندا نے کیا نغمے تخلیق کئے۔ یہ گانے تھے، پہلا-
’تیرا ہجر میرا نصیب ہے
تیرا غم ہی میری حیات ہے
مجھے تیری دوری کا غم ہو کیوں
تو کہیں بھی ہو میرے ساتھ ہے…‘
اور دوسرا گانا تھا
’آئی زنجیر کی جھنکار خدا خیر کرے
دل ہوا کس کا گرفتار خدا خیر کرے
جانے یہ کون میری روح سے چھوکر گزرا
ایک قیامت ہوئی بے دار خدا خیر کرے..‘
اور اس طرح اتنے شاندار نغموں سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی فلموں کے لئے گیت تخلیق کئے۔ ایسی فلموں میں سرفروش، آہستہ آہستہ، اس رات کی صبح نہیں، سُر وغیرہ شامل ہیں۔ وہ ہندو ہو یا مسلم دونوں طرف کی انتہا پسندی کے سخت مخالف تھے۔
ندا فاضلی کے اس شعر پر تنازعہ بھی کھڑا کیا گیا
گھر سے مسجد ہے بڑی دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ندا فاضلی ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے جب پاکستان گئے تو انہیں کچھ انتہاپسندوں نے گھیر لیا اور پوچھا کہ کیا آپ بچے کو اللہ سے بڑا سمجھتے ہیں؟ ندا کا جواب تھا کہ مجھے تو صرف اتنا پتہ ہے کہ مسجد انسان کے ہاتھ بناتے ہیں جبکہ بچے کو اللہ اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے۔
اردو ہندی کے اس عظیم شاعر نے 8 فروری 2016 کو اس دنیا کو الوداع کہا۔ کاش ’آدمی کی تلاش‘ عنوان والی ان کی نظم کی شروعات کچھ یوں ہوتی،
ابھی مرا نہیں زندہ ہے آدمی شاید
یہیں کہیں اسے ڈھونڈو، یہیں کہیں ہوگا
کاش اس طرح ڈھونڈنے پر وہ مل جاتے۔
یہ مضمون آج تک پر ہندی میں شائع ہو چکا ہے

منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔
اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا

بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے رستہ روکے راہوں میں
چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا

اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا

ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار ملا
جسے نگاہ ملی اس کو انتظار ملا

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا

اس کا قصور یہ تھا بہت سوچتا تھا وہ
وہ کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گیا

اچھی نہیں یہ خامشی شکوہ کرو گلہ کرو
یوں بھی نہ کر سکو تو پھر گھر میں خدا خدا کرو

پر شور راستوں سے گزرنا محال تھا
ہٹ کر چلے تو آپ ہی اپنے سزا ہوئے

جس سے بھی ملیں جھک کے ملیں ہنس کے ہوں رخصت
اخلاق بھی اس شہر میں پیشہ نظر آئے

دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ
ہر وقت میرے ساتھ ہے الجھا ہوا سا کچھ

چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب
سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں

کوئی کسی کی طرف ہے کوئی کسی کی طرف
کہاں ہے شہر میں اب کوئی زندگی کی طرف

زمیں دی ہے تو تھوڑا سا آسماں بھی دے
مرے خدا مرے ہونے کا کچھ گماں بھی دے

فہرست مرنے والوں کی قاتل کے پاس ہے
میں اپنے ہی مزار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

اس کو کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے
جو ہوا وہ نہ ہوا ہوتا یہ غم باقی ہے

ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت
رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی

نہ جانے کون سا منظر نظر میں رہتا ہے
تمام عمر مسافر سفر میں رہتا ہے

دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے

Leave a reply