یہ کہاں کا انصاف کہ سنے بغیر ہی سزا سنا دیں، عدالت کے پرویز مشرف سزا کیخلاف کیس میں ریمارکس

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر جنرل ر پرویز مشرف کی سزا کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد لازم تھا کہ آرٹیکل 6 آنے کے بعد 1973ء اور 1976ء کے سنگین غداری قوانین میں ترمیم کی جاتی، آرٹیکل 6 نیا جرم تو شامل ہوا مگر اس میں سزا کا طریقہ کار طے نہیں کیا گیا،ایسا ممکن نہیں کہ 18 ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 6 کے تحت خود بخود سزا ہو جائے، کوئی بھی عدالت وفاقی حکومت کی مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بعد غداری کی کارروائی کر سکتی ہے، یہاں وفاقی حکومت نے قانون کی پاسداری نہیں کی، وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت تو بنا دی اور فوجداری کیسے چلے گی اس کا طے ہی نہیں کیا گیا، اس کیس میں مدعی پر کوئی جرح نہیں کی گئی، اس وقت کے وزیراعظم نے عدالت بنانے کے بعد انکوائری کا حکم دیا، کیس آنے کے پہلے دن ہی خصوصی عدالت نے فرد جرم عائد کر دی،

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ 2007ء میں ایمرجنسی لگی اور یہ کہتے ہیں کہ آئین معطل ہوا، 2007 سے 2009ء میں فیصلہ آیا جس میں اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا، 2007 سے 2013ء سے خاموشی اور پھر یہ کیس آجاتا ہے،

خواجہ طارق رحیم ایڈوکیٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ پرویز مشرف نے آئین معطل کیا، علی ظفر ایڈوکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 6 کے ساتھ تعلق نہیں بتایا مگر اسے غیر آئینی اقدام قرار دیا،

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ بغیر حلف کے بیان لیا جاتا ہے کیونکہ وکیل بھی لکھوا سکتا ہے، اگر 342 کا بیان نہیں لے رہا تو اس سے منگوایا جاسکتا ہے، یہی اس میں غیر قانونی کام ہوا، اس فیصلے کو پڑھیں تو اس میں اعانت جرم کا ذکر کیاگیا، اعانت جرم میں پوری فوج کے لوگوں کر رگڑ دیا گیا ہے، اس طرح تو اس وقت کی عدلیہ کے حلف لینے والے بھی شامل ہو جائیں گے، جسٹس مسعود جہانگیر نے کہا کہ اس وقت خصوصی عدالت ترمیمی کیس بھی مانگ سکتی تھی،

جسٹس نقوی نے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ نے ایک آدمی سے پوچھے بغیر سزا سنا دی،342کے بیان ریکارڈ کیئے بغیر اس سے جواب منگوالیں وہ بھی نہیں کیا،فل بینچ نے کہا کہ ایکورینس پہلے کا ہے اور قانون بعد کا ہے.

عدالتی معاون نے کہا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے اکیلے ہی کیس شروع کرنے کا فیصلہ کیا جو قانون کے منافی ہے ۔عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فرد جرم میں آرٹیکل 6 کا ذکر ہی نہیں کیا گیا ۔ جسٹس مسعود جہانگیر نے کہا کہ جب وفاقی حکومت دیگر کو ملزم نہیں بناتی تو خصوصی عدالت دیگر ملزموں کو بلوا سکتی ہے؟ علی ظفر ایڈوکیٹ نے کہا کہ خصوصی عدالت کو دیگر ملزموں کو طلب کرنے کا اختیار نہیں تھا، غداری ایک شخص نہیں کر سکتا یہ جرم مجموعی طور پر لیا جا سکتا ہے، یہ رشوت والے قانون کی طرح لیا جابسکتا ہے رشوت دینے اور لینے والا دونوں جرم دار ہیں، اگر سیلیکٹیڈڈ لوگوں کے خلاف کاروائی ہو یہ آئین کے خلاف ہوگا۔

عدالت نے کہا کہ 3 نومبر 2017 کا پرویز مشرف کا اقدام تھا کیا ۔وفاق کے وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی.

خصوصی عدالت کا فیصلہ، پرویز مشرف نے چپ کا روزہ توڑ دیا، بڑا اعلان کرتے ہوئے کیا کہا؟

پرویزمشرف بارے عدالتی فیصلہ جلد بازی کا مظاہرہ، ایسا کس نے کہا؟

وقت کا تقاضا ہے ملک پر رحم کریں، فواد چودھری نے ایسا کیوں کہا؟

پرویزمشرف فیصلہ، پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ نے ردعمل دے دیا

پرویزمشرف فیصلہ، سراج الحق بھی میدان میں آ گئے، بڑا مطالبہ کر دیا

سابق صدر پرویزمشرف نے خصوصی عدالت کے قیام کوچیلنج کررکھا ہے.

درخواست گزار نے کہا کہ پرویز مشرف کیخلاف غداری کے استغاثہ کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی ہے،پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لئے وفاقی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی،سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی صوابدید پر خصوصی عدالت قائم کی، خصوصی عدالت کے پراسیکیوٹر کی تعیناتی سمیت کوئی عمل قانون کے مطابق نہیں کیا گیا،

لاہور ہائی کورٹ میں  سابق صدر کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی ،‏درخواست میں حکومت،وزارت قانون،ایف آئی اے اور خصوصی  عدالت کے رجسٹرارکوفریق بنایا گیا ہے، درخواست گزار پرویز مشرف نے درخواست میں کہا کہ خصوصی عدالت  نے 19نومبرکوموقف سنے بغیرغداری کیس کافیصلہ محفوظ کیا،بیماری کی وجہ سےبیرون ملک مقیم ہوں،

درخواست میں پرویز مشرف نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق کیس کودوبارہ سماعت کے لئےشروع کیا جائے ،

Shares: