کیسی عید؟کونسی عید؟

تحریر (زین علی)
عید خوشیوں کا تہوار ہے،رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید کا دن خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے۔لیکن اس دفعہ ۔۔۔کیسی عید؟کونسی خوشی؟
جب ایک عالمی وبا کے سبب روزانہ ملک بھر میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو رہے ہوں،جہاں ہر پل زندگی دم توڑ رہی ہو،جہاں ہر دوسرے گھر میں کرونا وائرس کا مریض زندگی اور موت کی کشمکش میں ہو ۔۔۔۔وہاں کیسی عید۔۔۔؟جہاں ہسپتالوں میں ایک عجیب ماحول برپا ہے،ہر شخص دوسرے کو وائرس زدہ سمجھ رہا ہے،جہاں گلے ملنا تو دور ہاتھ ملانے سے بھی ڈر لگتا ہے۔۔۔وہاں کیسی عید۔۔؟

پھر ایسے میں جب عید سے محض دو روز قبل لاہور سے کراچی جانے والا طیارہ حادثے کا شکار ہو جائے اور 98 قیمتی زندگیاں لقمہ اجل بن جائیں ۔۔۔۔۔وہاں عید کیسی۔۔۔
طیارے میں سوار بیشتر افراد اپنوں کے ساتھ عید منانے ہی جا رہے تھے، کوئی لاک ڈاون کی وجہ سے دیر سے گھر جا رہا تھا تو کوئی روزگار کے چکر میں لاہور ٹھہرا ہوا تھا۔
سوچیے طیارے میں سوار افراد کے پرواز سے قبل جزبات کیا ہونگے۔طیارے میں سوار افراد نے آ خری مسکراہٹ کے ساتھ ہی اپنی اڑان بھری ہوگی۔عملے سمیت 99 ہنستی مسکراتی زندگیاں ہوا کے دوش پراپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوئی ہونگی۔
سفر مکمل ہونے کے بعدکے منصوبوں کی پرواز طیارے سے بھی کئی گنا اونچی ہوگی، نہ جانے ائیر پورٹ پہ کتنی آنکھیں منتظر ہوں گی۔۔ کہ بابا آرہے ہیں۔۔۔ ماما پہنچنے والی ہیں۔۔ بیٹا آرہا ہے۔۔ پرسوں عید ہے ناں اکھٹے منائیں گے۔ جیسے جیسے طیارہ ہوا میں بلند ہورہاتھاانسانی ذہنوں کی پرواز طیارے سے اونچی اُڑانیں بھررہی ہوگی
سوچیے جب طیارہ رن وے کے قریب پہنچا ہوگا تو تمام مسافروں کے ذہنوں میں تخیلات کا ایک طوفان برپا ہوا ہوگا، کسی کو ائیرپورٹ سے نکلتے ہی بچوں کے لیے شاپنگ کرنا تھی،کسی کو ماں باپ کو عید کے تحائف دینے تھے۔۔۔مگر زندگی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔

30 سکینڈ قبل لینڈنگ سے زندگی جیسے رک سی گئی ہوگی، طیارے میں سوارافراد کے چہرے پر وہ مسکراہٹ جو وہ لے کر اڑان بھرے تھے وہ خوف اور گھبراہٹ میں بدل چکی ہوگی۔۔۔منصوبوں کے وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو چکے ہونگے۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ائیرپورٹ پر انتظار کرنے والے مسافروں کے اہلخانہ کے لیے قیامت صغرٰی برپا ہو چکی ہوگی۔۔۔ائیرپورٹ سے قبل طیارہ جب گھروں پر گرا ہوگا تو ہر مسافر کی آنکھوں میں زندگی ملنے کی شاید ایک آخری امید بچی ہو لیکن طیارے میں لگی آگ نے ان امیدوں کو جلا کر راکھ کر دیا اور کئی گھرانوں کی روشنیاں اسی طیارے کی راکھ میں جل گئی ۔۔کس کو معلوم تھا کہ جو لوگ اپنے پیاروں کو لینے ائیرپورٹ پہنچے ہیں انہی کی میت کو پہچاننے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کروانا ہوگا۔۔۔کسی کا بھائی اس سے بچھڑ گیا تو کوئی اپنے پورے خاندان سمیت اس آگ کی نظر ہوگیا۔ کسی کے سر سے باپ کا سایہ ہٹ گیا تو کوئی ماں کی ممتا سے محروم ہوگیا۔۔۔پوچھئیے زرا ان سے کہ کیسی عید ؟؟؟کونسی عید۔۔۔۔؟جب لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں تک نہ پہچان پا رہے ہوں وہاں عید کیا اور خوشی کیا۔۔۔۔

Comments are closed.