قرآن کریم فرقان حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک مومن کامل کی دنیاوی و اخروی جزا بیان فرمائی ہے
ہر کلمہ گو مسلمان اور مومن ہے لیکن جو شخص کلمہ پڑھ کے یعنی کلمہ اسلام کلمہ طیبہ پڑھ کہ پھر اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات اور فرامین کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتا ہے ، تو وہ ہی مومن کامل کہلاتا ہے، اور جو شخص اپنے ایمان اور کلمہ طیبہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو مسلمان اور مومن تو وہ بھی ہے لیکن وہ کامل مسلمان اور کامل مومن نہیں ہے۔
اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم فرقان حمید میں اور سرکارِ دوعالم ﷺ نے اپنے احادیثِ طیبہ میں ایک مسلمان اور مومن کے جتنے بھی انعامات اور ان کی جزا کا ذکر فرمایا ہے، تو وہ مومن کامل کی جزا کا ذکر فرمایا ہے ہر مسلمان اور مومن کی جزا جو قرآن وسنت میں بیان کی گئی ہے وہ نہیں ہے ہر ایک کلمہ پڑھنے والا ان انعامات کا جو دنیاوی ہوں یا اخروی ہوں مستحق نہیں ہے،دنیاوی و اخروی انعامات کا مستحق وہی ہے جو اپنے تقاضوں پر پورا اترتا ہے، اسی لئے قرآن کریم کی پہلی آیات میں بیان کیا گیا ہے، اللہ نے فرمایا کہ قرآن کریم یہ عظمت والی کتاب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور پھر اللہ نے فرمایا یہ متقین کے لئے ہدایت ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ متقی وہ شخص ہے جو اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے جب ایک شخص ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گا تو قرآن کریم اس کے لئے راہ ہدایت بنے گا، اور اس کے برعکس ایک مسلمان جو قرآن کی ہدایت کو اپنانا ہی نہیں چاہتا تو قرآن کیسے اس کو ہدایت دے گا،اور دوسرے جگ پہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تمام مسلمانوں کے لئے ہدایت ہے، اب ہدایت حاصل کون کرے گا جو متقی ہوگا, اسی لئے قرآن کریم میں دنیاوی و اخروی جتنے بھی احکامات ارشاد کیے گئے ہیں ان تمام کا تعلق مومن کامل کے ساتھ ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومن کامل کے متعلق سورہ کعف میں اخروی جو جزا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں ایمان قبول کیا صاحب ایمان ہوئے اور اپنے ایمان کو تکمیل تک پہنچا دیا اور نیک اعمال کیے اللہ نے فرمایا اب ان کا اخروی جو انعام ہوگا اللہ نے مختصراً فرمایا کہ اللہ نے ان مومنین کاملین کے لئے جنت الفردوس میں مہمان نوازی تیار رکھی ہوئی ہے، جنت میں یہ اللہ کے مہمان ہونگے،ان کے لئے جتنے بھی انعامات ہے یہ سب کہ سب مومنین کاملین کے لئے ہے، اور اللہ نے فرمایا کہ دنیا میں بھی ایمان کامل اور مومنین کے لئے جزا ہے اس کے متعلق اللہ نے سورہ مریم میں فرمایا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا وہ لوگ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال کیے، یعنی ایمان کے تقاضوں کو پورا کیا اللہ نے فرمایا دنیا میں ان کی جزا اور انعام کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں اس کے عزت پیدا فرما دے گا، اس کے ساتھ کسی کا نا سیاسی، معاشرتی یہاں تک کہ رشتہ داری کا تک نہیں ہوگا لیکن اللہ دوسرے لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے محبت پیدا کر دے گا، اور یہی اللہ تعالیٰ ایمان کامل والوں کو عطا کرتا ہے۔
اگر ہم اپنے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ دیکھیں تو یہاں پہ جتنے بھی متقدمین اور کبار اولیاء جو آئے تو ان میں بڑا نام حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللّٰہ کا ہے، حضرت داتاگنج بخش جن کو کہا جاتا ہے لاہور میں ان کو تقریباً گزرے ہوئے ہزار سال ہونے کو ہیں، لیکن آج بھی ان کا نام برصغیر پاک وہند میں چمک رہا ہے آج بھی اگر ان کے مزار پہ آپ جائیں تو لوگ اس عقیدت سے ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں، لوگوں کا وہاں بیٹھ کر تلاوت کرنا اللہ کا ذکر کرنا اور ان سے روحانی فیض حاصل کرنا اپنے لئے سعادت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اب ان کے ساتھ جو آئے افعانستان سے تھے ہمارا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تعلق زمانہ بھی نہیں وہ ہزار سال پہلے کے گزرنے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے دلوں میں ان کے لئے محبت اور محبت آج بھی موجود ہے، اسی طرح اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ وہ تشریف فرما ہوئے انہوں نے ہندوستان میں اسلام کو سربلند کیا اسلام کو پھیلایا اور اپنی زندگی اللہ کے راستے میں وقف کی، جس وقت ہندوستان میں کلمہ پڑھنے والا کوئی نہیں تھا، اور جب آپ دنیا سے جا رہے تھے تو ایک مستند روایات کے مطابق 90 لاکھ مسلمانوں کو کلمہ پڑھا کر جا رہے تھے، اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق زمانہ بھی نہیں لیکن پھر اللہ نے ہمارے دلوں میں ان کے لئے عقیدت اور محبت رکھی ہے کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے ایمان کامل کا تزکرہ کیا، تو ان ایمان کاملین کی محبت اللہ فرماتا ہے میں لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دوں گا،
بخآری شریف کی حدیث ہے سرکارِ دوعالم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے جو کہ ایمان کامل کی جزا ہے دنیا میں، تو اللہ تبارک جبریل علیہ السلام کو دنیا میں بولاتا ہے اس دنیا میں امام بخآری اس حدیث کو روایت فرماتے ہیں، اللہ فرماتا ہے اے جبریل میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے جبریل فلاں بندے سے میں بھی محبت کرتا ہوں تم بھی کرتے ہو جا آسمانوں میں اعلان کر دے کہ فلاں بندہ اس سے تم لوگ بھی محبت کرو، فرشتے بھی اس نیک بندے سے محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور فرشتوں کی محبت کہ وہ اس نیک بندے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعائیں مانگنا شروع کر دیتے ہیں، سرکارِ دوعالم ﷺ فرماتے ہیں کہ اس نیک بندے کی محبت جو آسمانوں میں بھی مقبول چکی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کی محبت زمین بھی لوگوں کے دلوں میں مقبول کر دیتا ہے اور یہی اللہ کا وعدہ ہے،
اور اسی طرح مشہور حدیث ہے جس کو حدیث قدسی کہتے ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ جو میرے نیک بندے کے ساتھ دشمنی کرتا اس کے ساتھ میں جنگ کا اعلان کرتا ہوں وہ میرے جنگ کے لئے تیار ہو جائے، اور یہ وہی بندہ ہے جس نے اپنے زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزاری ہے اور ایمان کامل کے تقاضوں کو پورا کیا ہے۔
ایک شخص اللہ کا محبوب تب ہی بنتا ہے کہ اللہ نے اس پر جو احکامات فرض کئے وہ اس پہ پورا ہوتا ہے، اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہے اور بندوں کے حقوق بھی عطا کرتا ہے، تو اللہ فرماتا ہے اس بندے کو میں اپنا محبوب بنا دیتا ہوں، اب یہ اللہ کا محبوب تو بن جاتا ہے لیکن اس کا یہ مرتبہ یہ پکا کب ہوتا ہے تو پھر اللہ فرماتا ہے کہ جب یہ مومن کامل فرائض کے بعد نوافل ادا کرتا ہے تو یہ یہ میرا قرب حاصل کرتا ہے یہ میرے اور بھی قریب ہو جاتا ہے، تو یہی وہ چیز ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا میں ایمان کامل والوں کو عطا فرماتا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو بھی ایمان کامل والوں کی دولت عطاء فرمائے اور جو کلمہ طیبہ ہم نے پڑھا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
@iTaimurOfficial