ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ کامیاب ہو. وہ زندگی بھر ناکامی سے بچتا رہتا ہے اور کامیابی کے حصول کے لیے دن رات تگ و دو کرتا رہتا ہے. اگر آس پاس نظر دوڑائیں تو ہر کوئی آپ کو کامیابی کے بارے سوچتا نظر آئے گا اور اس کے پیچھے بھاگتا نظر آئے گا. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل میں کامیابی ہے کیا اور کیا اس کے حصول کے بعد انسان مطمئن ہو جاتا ہے؟ کیا جسے وہ کامیابی سمجھتا ہے اس کے حصول کے بعد اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی؟

کامیابی ہر انسان کے لئے الگ معنی و مفہوم رکھتی ہے. ہر شخص کے لیے کامیابی کا ایک الگ معیار ہوتا ہے. اُس کی کامیابی انحصار کرتی ہے کہ اس نے کامیابی کا معیار کیا طے کیا ہے. کسی کے ہاں دولت کامیابی ہے تو کسی کے لیے شہرت. کوئی اپنی خواہش یا خواہشات کی تکمیل کو کامیابی قرار دیتا ہے تو کوئی اقتدار. کسی کے لئے نوکری اور کوٹھی بنگلے کا حصول ہی کامیابی کہلاتی ہے. بلکہ عام اصطلاح میں تو لوگ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے والے یعنی خود کفیل شخص کو بھی کامیاب کہتے ہیں. اصل میں جس کے پاس جو چیز نہیں ہے اس کا میسر ہونا ہی اسے کامیابی لگتی ہے. بحرحال یہ بات طے ہے کہ کامیابی کا مطلب ہر فرد کے لیے مختلف ہوتا ہے. دوسرے لفظوں میں وہ اپنی زندگی کا ایک مقصد طے کرتا ہے پھر وہ محنت کرتا ہے اور اس کے حصول کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے. لیکن کیا محض ان چیزوں کا حصول ہی کامیابی ہے؟ کیا یہ سب لوگ کامیاب ہیں؟

یہ سب مفاہیم سراب اور فانی دنیا کی کامیابی کے ہیں. کیونکہ یہ دنیا جب فانی ہے تو اس کی کامیابی بھی ایک وقت کے لئے ہو گی دائمی نہیں ہوگی. اصل میں تو کامیابی وہ ہے کہ جو کبھی ختم نہ ہو اور وہ ہے اگلی دنیا کی کامیابی جو کہ ہمیشہ رہنے والی ہے. اللہ تعالی نے اس دنیا کی کامیابی کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے بلکہ ہمیشہ رہنے والی دنیا یعنی آخرت میں کامیابی کے حصول کا ہمیں حکم دیا ہے. قرآن کریم کیونکہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے تو قرآن سے پوچھتے ہیں کہ فلاح یعنی کامیابی کیا ہے. ایک جگہ ارشاد ربانی ہوتا ہے "دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے، جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہے” (القران 59:20)
اب اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ اصل کامیابی تو یہ ہے کہ ہم نیک کام کریں کریں، احکام الٰہی کے مطابق اس عارضی دنیا میں زندگی گزاریں اور نیک اعمال کا صلہ یعنی جنت حاصل کریں اور کامیاب ہوں. جیسا کہ ایک اور آیت میں ارشاد ہے” مومنو! رکوع کرتے اور سجدہ کرتے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کرو تاکہ فلاح پاؤ” (القرآن 22:77)
یعنی اللہ کے نزدیک ایک انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں اس کی عبادت بجا لائے، نیک اعمال کرے، اس کی مخلوق کی خدمت کرے، ان کی مدد کرے تاکہ اُخروی دنیا میں اللہ کے ہاں سرخرو ہو. ایک اور آیت مبارکہ میں آتا ہے کہ اُس دن (یعنی قیامت کے دن) وہی فلاح پانے والے ہوں گے جن کے پلڑے بھاری ہوں گے یعنی جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی.

اگر آپ قرآن پاک کا مطالعہ کریں تو آپ کو اِس دنیا کی کی کہیں اہمیت نہیں ملے گی اور ہم نے اسی فانی دنیا میں میں کامیابی حاصل کرنا شروع کر دی. اگر اس دنیا کی برائے نام کامیابی حاصل کر بھی لیں تو وہ عارضی ہوگی. بے شک اس دنیا میں بھی ہمیں محنت کرنی چاہیے اور ایک اچھا مقام حاصل کرنا چاہیے لیکن یہ زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہیے. اِسی ہی کو کامیابی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اگلی دنیا میں حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لیے بھی محنت کرنی چاہیے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکامات پر عمل کرکے اُخروی زندگی کے لئے بھی کچھ کرنا چاہیے چاہیے. اللہ تعالی ہم سب کو دنیا اور آخرت میں کامیابی عطا فرمائے. آمین

@ibrahimianPAK

Shares: