وزیر مملکت برائے داخلہ عبدالرحمان کانجو کی فتح محمد ملک سے ملاقات

وزیر مملکت برائے داخلہ عبدالرحمان کانجو کی فتح محمد ملک سے ملاقات ہوئی ہے جبکہ ادبی سماجی موضوعات پر گفتگو کے دوران مختلف چیزیں زیر بحث رہیں، عبد الرحمن کانجو وزیر مملکت برائے داخلہ کا کہنا تھا کہ معاشرے علم کتاب کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے رواداری امن استحکام اور بین المذہب ھم آہنگی کے لئے پروفیسر فتح محمد ملک جیسی شخصیات مشعل راہ ہیں۔


جبکہ پروفیسر فتح محمد ملک کے فرزند طاہر نعیم ملک نے اپنے ٹوئیٹر پر لکھا کہ عبدالرحمان کانجو کی کتاب دوستی کی وجہ مخدوم حامد رضا گیلانی مرحوم کی تربیت اور پاکستان کی سب سے بڑی نجی مسعود جھنڈیر لائیبریری کا ان کے ابائی علاقے میں ھونا ہے ۔ جبکہ سیاستدانوں کو عوام دوست کے ساتھ کتاب دوست بھی ہونا چاہیئے ۔

مزید یہ بھی پڑھیں؛
پروفیسر فتح محمد ملک: ایک سادہ لوح عظیم دانشور
توشہ خانہ کا ٹرائل روکنے کا کیس، فیصلہ آج، عمران خان کی نیب،پولیس میں طلبی بھی آج
توشہ خانہ کیس، آج کا وقت دیا تھا الیکشن کمیشن اپنے دلائل دے ،جج ہمایوں دلاور
علی امین گنڈا پور کے گھر چھاپہ،غلیل،ڈنڈے،سیلاب ریلیف کا سامان برآمد
خیال رہے کہ صحافی ملک رمضان اسراء کے مطابق پروفیسر فتح محمد ملک جیسے دانشور ہماری فکری اور نظریاتی رہنمائی کرتے ہیں۔ نئی نسل کو اقبال اور قائد کے نظریہ سے روشناس کرتے ہیں۔ اور نظریہ پاکستان اور اسلام کی صحیح معنوں میں ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک روشن خیال عالم ہیں تو دوسری طرف اعتدال پسند پروفیسر جنکی محفل آپ کو گھنٹوں علم سے بھرپور گفتگو سننے پر مجبور کردے اور اختتام پر آپ کا دل پروفیسر صاحب کی علمی و ادبی نشست چھوڑنے پر اگلی بیٹھک تمنا رکھے۔

جبکہ یاد رہے کہ پروفیسر فتح محمد ملک 18 جون 1936 کو ضلع چکوال تحصیل تلہ گنگ کے چھوٹے سے گاؤں ٹہی میں ایک غریب کسان ملک گل محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔ والد کی تعلیم میٹرک تک تھی لیکن وہ انہیں ہمیشہ تقاریر، مناظرے اور علمی مجالس میں لے جاتے تھے۔ اور گھر میں بھی بچوں کیلئے کتب رکھی ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب فتح محمد ملک کو کالج میں داخلہ کرانے کا وقت آیا تو اس وقت جو آپشن تھا اس میں راولپنڈی کا گارڈن کالج، زمیندار کالج گجرات، گورنمنٹ کالج چکوال اور گورنمنٹ کالج کیمل پور یعنی اٹک تھا۔ لیکن ملک گل محمد نے کیمل پور کالج کا انتخاب کیا کیونکہ وہاں ڈاکٹر غلام جیلانی برگ اور پروفیسر محمد عثمان جیسے ہونہار اساتذہ تھے۔

Shares: