کپتان کے وار اور اپوزیشن کا سخت جواب ،تحریر: نوید شیخ

۔ ملک میں سیاسی ہلچل اور سیاسی درجہ حرارت اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہر پانچ منٹ بعد کوئی نہ کوئی بریکنگ نیوز آرہی ہے ۔ کوئی نہ کوئی گروپ ، اتحادی ، حکومتی ارکان یا اپوزیشن لیڈر پریس کانفرنس کر رہا ہے ۔ یوں کراچی سے پشاور تک اور کوئٹہ سے لاہور تک اسلام آباد میں تخت بدلے جانے کی خبریں گردش میں ہیں ۔
۔ سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان کی بات کریں تو دھمکیاں دینے سے وہ باز نہیں آرہے ہیں لگ یوں رہا ہے کہ وہ اپوزیشن کو ڈرانا چاہ رہے ہیں مگر اپوزیشن مزید تگڑی ہوکر سامنے آرہی ہے ۔ بلکہ دیکھائی یوں دیتا ہے کہ اپوزیشن اب عمران خان کے ہر حملے کا جواب ان کی ہی زبان ، انکے ہی انداز اور ان کے ہی طریقے میں دینے کے لیے مکمل تیار ہے ۔
۔ کراچی کے بعد آج لاہور میں عمران خان نے دوبارہ اس بات کو دوہرایا ہے کہ عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد سب کا حساب چکتا کر دوں گا۔ پنجاب میں پیدا ہونے والے حالات پر بھی قابو پا لیں گے، تمام ارکان میرا ساتھ دیں گے، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔۔ کیونکہ میرے کپتان نے اپنی جارجانہ انداز بیان سے گرما گرمی خوب بڑھا دی ہے تو آج پارلیمنٹ لاجز میں موجود اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی کی سکیورٹی کیلئے جے یوآئی کی سکیورٹی تنظیم انصارالاسلام کے سکیورٹی کارکن ڈی چوک پہنچ گئے ۔۔ پھر انصار الاسلام کے کارکنوں کی موجودگی پر اسلام آباد پولیس نے آپریشن کرکے متعدد گرفتاریاں کی ہیں۔ پولیس جے یو آئی کے ایم این اے صلاح الدین ایوبی کو بھی گرفتار کر کے لے گئی جبکہ متعدد رضا کاروں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ۔ اس پر مولانا فضل الرحمان نے اپنے کارکنوں کو ملک بھر سے اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی اور کہا کہ جو کارکن اسلام آباد نہ پہنچ سکے وہ اپنے اپنے علاقوں میں سڑکوں کو جام کردیں۔۔ کیونکہ اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے ارکان کے لاپتہ کیے جانے اور سکیورٹی پر خدشات ظاہر کیے تھے جس کے بعد مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ انصار الاسلام کے کارکن اپوزیشن کے تمام ارکان کو سکیورٹی فراہم کریں گے۔

۔ اب اس پر شہباز گل سمیت دیگر تو خوب سیخ پا ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ اس معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا یہ سیکورٹی لیپس ہے۔ بلکہ آئی جی اسلام آباد کوکوس رہے تھے۔ بہرحال آئی جی اسلام آباد نے اسکا فوری نوٹس لے کر کئی پولیس افسران معطل کر دیے ۔۔ مگر ن لیگ کی مریم اورنگ زیب اور دیگر اپوزیشن والوں کا کہنا ہے کہ جب کھلے عام دھمکیاں دی جائیں گی تو ہم اپنے ارکان کی سیکورٹی کابندوبست تو کریں گے ۔ ۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عمران خان اگر مزید ایک دو دن ایسے بیانات دیتے رہے تو معاملات کس نہج تک پہنچ سکتے ہیں اور یہ خود ان کی اپنی حکومت اور پارٹی کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا ۔ کیونکہ بیانات دینا ، ٹوئٹر پر ٹرینڈ بنوانا کچھ اور چیز ہے اور عملی طور پر گراونڈ پر حالات کچھ اور معاملہ ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے عمران خان کی اس وقت عوامی حمایت ویسی نہیں ہے جیسے 2018کے الیکشن سے پہلے تھی اور اس چیز کو ہی اپوزیشن سب سے زیادہ کیش کررہی ہے ۔ مگر عمران خان اب بھی اپنے پرانے اسٹائل میں ہی اپوزیشن کو ڈیل کرنا چاہتے ہیں جبکہ اب وہ حکومت میں ہیں اور دیگر جماعتیں اپوزیشن میں ہیں ۔ ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو بلاول بھٹو زرداری نے دھواں دار پریس کانفرنس کی ہے ۔ جس میں وہ کافی غصہ میں بھی دیکھائی دیئے ۔ مگر غصے کے باوجود انھوں نے کسی نازیبا لفظ کا استعمال نہ کیا ۔ مگر چھوڑا انھوں نے کسی کو نہیں ۔۔ گزشتہ روز کی کپتان کی دھمکیوں کا بڑا تسلی بخش جواب دیتے ہوئے باور کروا دیا کہ اگر بندوق کی بات ہوگی تو چلائی تو کبھی نہیں مگر ایسا نہیں کہ وہ چلا نہیں سکتے ۔ بلاول نے یہ بھی یاد کروایا کہ عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی کو کرپشن الزامات پر نوکری سے نکالا گیا ۔ پھر اس بات کو بنیاد بنا کر انھوں نے کہا کہ۔ عمران خان کو شرم نہیں آتی، اپنی والدہ کے نام پر اسپتال کے پیسے پر ڈاکا ڈال کر اپنی پارٹی چلائی، امریکی عدالت نے آپ کے خلاف فیصلہ سنایا ہے لیکن آپ دوسروں پر الزام تراشی کرتے ہو۔۔ پھر بشری بی بی کو بھی نہیں چھوڑا اور کہا کہ میں نے کبھی بھی خاتون اول کے بارے میں کوئی غلط زبان استعمال نہیں کی لیکن خاتون اول کی کرپشن کے بارے میں جو باتیں کی جا رہی ہیں ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے، ہمیں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں کوئی ٹرانسفر اور پوسٹنگ اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک خاتون اول کو پیسے نہ دیے جائیں۔
۔ جبکہ مولانا کے حوالے سے کہا کہ ہمارا مولانا کی فیملی سے 1971 سے سیاسی اختلاف ہے لیکن میں نے کبھی بھی مولانا فضل الرحمان کے خلاف غلط زبان استعمال نہیں کی۔ آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ مولانا فضل الرحمان کے خلاف اس طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں۔

۔ بلاول کے بعد اپوزیشن کی جانب سے دوسرا بڑا حملہ ن لیگ کی طرف سے ہوا ۔ مریم نواز نے عمران خان شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری جماعت کے بخیے ادھڑ رہے ہیں اور اس کی ذمہ دار نہ اپوزیشن ہے اور نہ کوئی ملکی یا غیر ملکی سازش۔ اس کے ذمہ دار آپ خود ہیں، آپ کی گندی زبان ہے، آپ کا تکبر اور غرور ہے اور اپنے ممبران کو احترام نہ دینا ہے۔ اب بہت دیر ہو چکی۔ آپ کی خالی دھمکیاں اب کسی کام کی نہیں۔
۔ غصہ، اشتعال، دھمکیاں، گالیاں، زبان درازی، گھبرا گئے ہو نا ۔۔۔
۔ تم نے پاکستان کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں پھینک دیا ہے ۔
۔ مزید سازش کا واویلا کر کے تم قوم کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔
۔ تمہارا کارنامہ یہ ہے کہ تم نے پاکستان کو اندرونی طور پر تباہ و برباد اور بیرونی طور پر تنہا کر دیا ہے۔ اپنا انجام دیکھ کر گھبراؤ نہیں- ڈرامہ بازی بند کرو۔۔ جبکہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے زرا شائستہ زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو اپنا انجام نظر آنے لگا ہے جس کے باعث وہ چور چور کا واویلا مچا کر غیر اخلاقی زبان بھی استعمال کر رہے ہیں ۔ یہ گھٹیا سیاست کر رہے ہیں ۔ ۔ تو اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز نے کہا کہ عمران نیازی نے اپنی تقاریر میں اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ ان کے ساتھیوں کو چاہئے کہ جب کچھ ایسا کہنے لگیں ان کے منہ پر ٹیپ لگا دیں ۔ ۔ دراصل آج بلاول اور مریم سمیت دیگر نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ جو سمجھتے ہیں اپوزیشن ڈر جائے گی اور پیچھے ہٹ جائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا ۔ اور اگر عمران خان اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کی کوشش کریں گے تو رہتے وہ خود بھی شیشیے کے گھر میں ہی ہیں باقی بھی پتھر مارسکتے ہیں۔۔ دیکھا جائے تو گزشتہ کئی روز سے عمران خان کافی جارحانہ انداز میں اپوزیشن کو باونسرز مار رہےتھے ۔ مگر آج اپوزیشن نے بھی میدان عمل میں آکر کپتان کو چوکے چھکے لگا دیے ہیں۔ ۔ کیونکہ جس طرح آج اپوزیشن نے آکر حملہ کیا ہے اب عمران خان اپنے بیانات کے حوالے سے بیک فٹ پر نہ گئے تو نقصان زیادہ ان کا ہی ہوگا ۔ اور مجھے معلوم ہے کہ وہ پیچھے نہیں جائیں گے بلکہ مزید غصہ دیکھانے کی کوشش کریں گے ۔ مگر اس بار حالات ان کے لیے سازگار نہیں ہیں ۔ ۔ کیونکہ جب بلاول یا مریم یا شہباز یا مولانا ۔۔۔۔ عمران خان کی بیگم بشری بی بی ، والد گرامی ، شوکت خانم ہسپتال اور انکی بہن پر بات کریں گے تو یہ چیزیں پھر میڈیا پر بھی ڈسکس ہوں گی ۔ اور جب یہ وہاں ڈسکس ہوں گے تو یہ چیزیں عمران خان کو بہت دکھی کریں گی ۔ ۔ مراد سعید سے پریس کانفرنس کرواکر اس کو کور اپ کرنے کی کوشش تو کی ہے ۔ مگر یہ مراد سعید کے بس کی بات نہیں کیونکہ اپوزیشن کی تمام لیڈر شپ نے خود سامنے آکر عمران خان کو جواب دیا ہے ۔

۔ یوں اپوزیشن صرف ڈرائنگ روم کی سیاست میں ہی نہیں عمران خان کو ٹف ٹائم دے رہی ہے بلکہ بیانیہ کی جنگ میں بھی خوب رگڑا لگا رہی ہے ۔ اس وقت دیکھنے اور سمجھنے کی یہ بھی ضرورت ہے کہ وہ لوگ جو کپتان کی وفاداری کادم بھرتے تھے ۔ خاص طور پر عمر ایوب ، خسرو بختیار ، غلام سرور ، اعظم سواتی ، اعجاز شاہ ، فخر امام وغیرہ ۔۔۔ ایسی ناموں کی ایک لمبی لسٹ ہے ۔ یہ بالکل منظر سے غائب ہیں ۔ اب یہ نہ تو کوئی پریس کانفرنس کررہے ہیں ۔ نہ ٹی وی شوز میں جارہے ہیں ۔ ایسے خاموش ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ یہ وہ کردار ہیں۔ جو موسم بہار ہو تو سب سے آگے یہ ہوتے ہیں اور جب موسم خزاں کا ہو تو یہ اردگرد تو دور کی بات یہ بھی شائبہ نہیں ہونے دیتے کہ یہ اس مشکلات میں گھیری سیاسی جماعت کے وزیر ہیں ۔۔ آخر میں یہ بھی بتا دوں کہ اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فوری بعد صدر مملکت کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ یعنی ایک ہی حملہ میں دو وکٹیں گرانے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے ۔ ۔ پھر ترین گروپ میں تنازعات کی بہت سے خبریں گردش کررہی ہیں ۔ اس میں پی ٹی آئی والوں کی زیادہ کارستانی ہے ۔ حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ ق لیگ کی دوبارہ انٹری کے بعد ممکن ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلی ق لیگ کا ہو ۔ اور اسپیکر ترین گروپ کا یا پیپلزپارٹی کا ۔ آج اس حوالے سے بھی تمام چیزیں تقریباً فائنل ہوجائیں گی ۔ ۔ میری چڑیل کے مطابق جس طرح اپوزیشن نے پلاننگ کی ہے اگر ویسا ہوگیا تو ۔ نیا صدر پیپلزپارٹی سے ، اسپیکر جے یوآئی ف سے ، وزیر اعظم ن لیگ سے اور وزیر اعلی ق لیگ سے آتا دیکھائی دے رہا ہے ۔

Comments are closed.