کراچی: گرتی عمارتیں، ہر اینٹ کے نیچے سے اٹھتی چیخ، مجرم کون؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
کراچی جو پاکستان کا معاشی ہب، صنعتی مرکز اور ملک کی سب سے بڑی آبادی والا شہر ہے، یہ شہر اب صرف کاروبار، روشنیوں اور شور کا استعارہ نہیں رہا بلکہ یہاں ہر گرتی عمارت ایک چیخ ہے جو ملبے سے نکل کر آسمان سے سوال کرتی ہے کہ آخر مجرم کون ہے؟

گزشتہ پانچ سالوں میں اس شہر میں کئی عمارتیں زمین بوس ہوئیں۔ کہیں پانچ منزلہ عمارت گری تو کہیں رہائشی اپارٹمنٹس یا فیکٹری کی چھت دھماکے سے نیچے آ گری۔ ان سانحات میں درجنوں زندگیاں چلی گئیں، سیکڑوں خواب دفن ہوئے اور ہر بار کچھ دن شور اٹھا، کچھ افسر معطل ہوئے، لیکن کوئی مستقل حل سامنے نہ آیا۔

4 جولائی 2025 کو لیاری کے بغدادی محلے میں گرنے والی عمارت محض ایک عمارت نہیں تھی بلکہ وہ کراچی کی بلڈنگ پالیسی، حکومتی نااہلی، بلڈرز کی حرص اور عوام کی بے بسی کا علامتی مجسمہ تھی۔ وہ عمارت جو 50 سال پرانی تھی اور خطرناک قرار دی جا چکی تھی، آخر کیوں خالی نہ کرائی گئی؟ کیوں ان سات جانوں کو موت کے منہ میں دھکیلا گیا؟

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ مارچ 2020 میں گلبہار میں 27 افراد ایک غیر قانونی عمارت کے نیچے دب کر مر گئے۔ اپریل 2023 میں نیو کراچی کی ایک فیکٹری میں چار فائر فائٹرز جان سے گئے۔ 2021، 2022، 2023 اور 2025 کے مختلف مہینوں میں شاہ فیصل کالونی، مچھر کالونی، بھینس کالونی اور کھارادر میں بھی یہی ملبہ گرا . کبھی مزدور، کبھی بچے اور کبھی ماں باپ اس ملبے میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) نے 578 سے زائد خطرناک عمارتوں کی نشاندہی کی مگر ان میں سے بیشتر آج بھی لوگوں سے آباد ہیں۔ SBCA کو نہ وسائل دستیاب ہیں، نہ سیاسی آزادی، نہ تکنیکی استعداد۔ اکثر عمارتوں کو نوٹس تو جاری ہو جاتا ہے مگر نہ انخلاء ہوتا ہے، نہ انہدام اور آخرکار ایک دن موت کا بلاوا آ جاتا ہے۔

ذمہ دار صرف ادارے نہیں بلکہ وہ بلڈرز بھی ہیں جو چند ٹکوں کی خاطر تعمیراتی اصولوں کو روندتے ہیں، وہ مالکان بھی جو خستہ حال عمارتوں میں کرایہ داری جاری رکھتے ہیں اور وہ رہائشی بھی جو غربت یا بے خبری میں خطرہ مول لیتے ہیں۔ سب اس جرم میں شریک ہیں، کچھ خاموشی سے، کچھ بے بسی سے اور کچھ جانتے بوجھتے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کڑوے سچ کا سامنا کریں۔ ہمیں خود سے یہ سوالات پوچھنے کی ہمت کرنا ہوگی کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نوٹس جاری کرنے کے بعد خاموش کیوں ہو جاتی ہے؟ بلڈرز کو قانون کے شکنجے میں کیوں نہیں کسا جاتا؟ ہر سانحے کے بعد چند افسران کی علامتی معطلی سے آگے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ غیر قانونی عمارتیں تعمیر ہونے سے پہلے کیوں نہیں روکی جاتیں؟ سیاسی سرپرستی ہر بار مجرموں کی ڈھال کیسے بن جاتی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں بلدیاتی ادارے، صوبائی حکومت اور خود شہری اپنی جان کے تحفظ کے لیے کب جاگیں گے؟ اگر آج ہم نے ان چیخوں کو نہ سنا تو آنے والا کل ہم سے بھی بدلہ لے سکتا ہے۔

کراچی کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اب ایک عظیم امتحان بن چکی ہے، جس سے نظریں چرانا صرف آنے والی تباہی کو دعوت دینا ہے۔ یہ وقت عمل کا ہے، ورنہ ہر اینٹ ہماری خاموشی کی گواہ بن کر ہماری بے حسی کا ماتم کرتی رہے گی۔

Shares: