کراچی ڈکیتوں سے بچاؤ ،تحریر .ام سلمیٰ

کراچی میں پچھلے کئی سالوں سے اسٹریٹ کرائمز میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے لیکن پچھلے کئی ماہ میں یے اضافہ کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ زندگی اور قیمتی اشیاء کی حفاظت کے حوالے سے بگڑتی ہوئی صورتحال کی بنیادی وجوہات تک پہنچنے کے لیے آپ کو ماہر معاشیات یا فلسفی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی رواں ماہ ایک اور بات سامنے آئی ہے کہ اس طرح کے جرائم جیل کے اندر سے آپریٹ ہو رہے ہیں. یہ کرنے والے اور اِنکی سرپرستی کرنے والے اس قدر مضبوط ہوگئے ہیں کہ انکو جیل کے اندر سے ایسے کام کرنے میں کوئی دقت پیش نہں آرہی ہے۔اور کئی واقعات میں خود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد ملوث پائے گئے ہیں. جو عام شہریوں نے پکڑنے کے بعد پولیس کے حوالے کیے ہیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سندھ کی صوبائی حکومت کے پاس کوئی فوری حل نہں نظر آتا.

چند روز قبل اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا ایک تاجر کلفٹن کے نواحی علاقے میں دن دیہاڑے ڈکیتی کی واردات میں اس وقت اپنی جان اور مال سے ہاتھ دھو بیٹھا جب وہ بینک سے 70 لاکھ روپے سے زائد نکال کر جا رہا تھا۔ ڈاکوؤں نے مزاحمت کی تو اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ کراچی میں جان کی قیمت اب ایک موبائل فون کی قیمت جتنی رہ گئی ہے کیوں کے چھینے والے افراد مزاحمت کرنے والوں کو ایک گولی سے اِنکی جان کا خاتمہ کر دیتے ہیں.

اسی دن ایک نوبیاہتا نوجوان کو ایک اور پوش علاقے میں اس کی رہائش گاہ پر اس کی والدہ، بہن اور خاندان کے دیگر افراد کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ملک کے معاشی حب میں تقریباً آئے روز ڈکیتیوں اور قتل و غارت گری کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ معمولی مزاحمت پر لوگ مارے جا رہے ہیں۔ شہری اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ معمولی رقم بھی لے جانے سے ڈرتے ہیں۔ATM سے پیسے نکالتے ڈرتے ہیں کوئی بھی محفوظ محسوس نہیں کر رہا ہے۔تو ایسے میں اگر گورنمنٹ ہر شخص کو بینکنگ کے طرف لا نا چاہتی ہے تو اس سے پہلے گورنمنٹ کو حالات سازگار بنانا ہونگے.

ان جرائم کے بڑھنے کی سب سے بنیادی وجہ ان جرائم کو کنٹرول نہ کرنا ہے جب تک ان کا صحیح طرح سد باب نہں کیا جائے گا اس میں اضافہ ہوتا رہے ہے اور باقی ساری وجوہات جن کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور کم ہوتے روزگار کے مواقع کے مجموعی اثرات جرائم کے بڑھتے ہوئے گراف میں ظاہر ہو رہے ہیں، بشمول لوٹ مار۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021 کے پہلے آٹھ مہینوں میں شہر میں اسٹریٹ کرائم کے تقریباً پچاس ہزار واقعات رونما ہوئے جن میں زیادہ تر اغوا برائے تاوان، قتل، گاڑیوں کی چوری کے ساتھ ساتھ موبائل فون چھیننے کے واقعات تھے ۔ اور ہر ماہ اس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ کئی سالوں سے ہوتے ہوئے ان واقعات کا کوئی صحیح سد باب نہں ہو رہا تو جرائم پیشہ لوگ اور مضبوط ہوجاتے ہیں. مجرم دن دیہاڑے دکانداروں عام شہریوں کو کو تیزی سے نشانہ بنا رہے ہیں، جس سے تاجر اورہر عام شخص اپنی جانوں اور قیمتی چیزوں کے خوف میں مبتلا ہیں۔

روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ملک کو معاشی وسعت کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بیمار معیشت کو صحت کی طرف واپس لانا ایک بہت بڑا کام ہے۔ یہ حقیقت کہ صوبائی وزیر اعلیٰ اور کے ایم سی کے ایڈمنسٹریٹر وزیر تعلیم سعید غنی نے کئی موقعوں پر سنگین جرائم کی صورتحال کو تسلیم کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کے موجودہ نظام میں کمزوری ہے جس کے باعث حالات دن بہ دن بد تر ہو رہے ہیں. ان حالات سے قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے کی حکومت کی اہلیت پر لوگوں کے گھٹتے ہوئے اعتماد کو فروغ مل رہا ہے.حکومت کو جلد سے جلد عملی طور پے ان حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے میدان میں آنا ہوگا ورنہ صورتحال اس سے زیادہ کہیں اور بد تر ہوجائے گی۔

Twitter handle
@umesalma_

Shares: