‏تغافل کی آغوش میں سورہے ہیں
تمہارے ستم اور میری وفائیں —

ہر شہر اور صوبے کو وہاں رہنے والے لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے ۔
جیسے پشاور کو پٹھانوں سےپنجاب کو پنجابیوں سے بلوچستان کو بلوچوں سے۔
لیکن کراچی سب کا ہے سب کے لئے ماں کی شفقت رکھتا یہ شہر وطن عزیز کے ہر شہری کو ماں کی طرح آغوش میں سمیٹ لیتا ہے !
لیکن ستم دیکھیے کے وفائیں تقسیم کرتا شہر نہ صرف حکومتی عدم توجہ کا شکار رہا بلکہ ہم یہاں بسنے والے بھی شریک جرم ہیں کبھی نا اہلوں کو ووٹ دے کر تو کبھی ہر نا انصافی پر خاموش رہ کر !
آخر اہلیان کراچی اس قدر خاموش کیوں رہے؟ ہمیں ٹوٹے پھوٹے روٹ دیئے گئے
ہم "خاموش ” ہمیں بجلی کے طعطل کا سامنا کرنا پڑا ہم نے خاموشی سے جنریٹر اور یو پی ایس خرید لئے ہمیں مردم شماری میں کم گنا گیا ہم پھر خاموش رہے یہ طویل خاموشی یا تو کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے یا میسر کچھ سہولتوں سے بھی محروم کر سکتی ہے۔
پہلے معمولی بارشوں سے نصف کراچی زیر آب آتا ہے لیکن گزشتہ سال ہونے والی مون سون کی بارشوں میں پورا کراچی ڈوب چکا تھا اب چاہے وہ پاپوش نگر ہو لیاقت آباد ہو یا ڈیفنس کی گلیاں سب نے

پانی پہ کشتیاں چلائی ۔
اب سندھ سرکار مانے یا نہ مانے سعید غنی شارع فیصل کا صاف ستھرا حصہ تلاش کرنے کے بعد
"سب نارمل ہے” کی رپورٹ دیتے رہیں
لیکن اہلیان کراچی نے پانی میں کشتیاں چلائی سو حقیقت سے رو شناس ہیں !

گزشتہ سال کراچی میں مون سون کی بارشوں نے 90 سالہ ریکارڈ توڑا بادلوں اور بارشوں کی یہ سازش جاری رہی تو ریکارڈ بنتے ٹوٹتے رہیں گے۔
اگر بات آج کی بارش کے حوالے سے کی جائے تو ایک طرف نکاسی آب کے معاملات کچرے سے بھرے نالے حکومت سندھ کی سیاست کو اپنے اندر دفن کر رہے ہیں وہیں بجلی کی بندش نے شہریوں کے لئے باران رحمت کو زحمت بنا دیا کئی علاقوں میں بارش کی پہلی بوند کے ساتھ بجلی لمبی رخصت پر گئی اور رات گئے لوٹی لیکن گلستان جوھَر کے بلاک 18 سمیت مختلف علاقوں میں آدھی رات تک بجلی موجود نہیں تھی
گلستان جوھَر بلوچستان سجی کے سامنے تنگ آئے شہریوں نے مین روڈ بلاک کر کے احتجاج کیا
آخر وطن عزیز کا سب سے بڑا شہر جو ملک کی معشیت میں۔ ریڈ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے
کب تک زبوں حالی کا شکار رہے گا

Shares: