کراچی میں ٹیلر شاپ چلانے والی ٹرانس جینڈرخواتین کے چرچے

0
63

مخنث افراد نے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی صدر ٹاؤن کے مصروف کاروباری علاقے محمد علی (اے ایم ) جناح روڈ پر حال ہی میں دکان کھولی تھی لیڈیز کپڑوں کی سلائی کی دکان چلا کر حلال رزق کمانے والی ٹرانس جینڈرز خواتین کی تعریفیں کی جا رہی ہیں۔

باغی ٹی وی :خواتین کے لیے دیدہ زیب اور فیشن ایبل لباس تیار کرنے والی ٹیلر شاپ کی بانی 35 سالہ جیا نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ خواتین خوشی سے مرد حضرات کے بجائے انہیں کپڑے دی رہی ہیں۔

جیا کا کہنا تھا کہ کراچی میں عام طور پر خواتین کے کپڑے سلنے والے درزی مرد حضرات ہوتے ہیں اور بعض خواتین مرد حضرات کو کپڑے دیتے وقت پریشانی کا شکار رہتی ہیں مگر ان کی جانب سے دکان کھولے جانے کے بعد خواتین کی پریشانی کم ہوئی۔

جیا کی دکان پر آنے والی خواتین نے بھی تسلیم کیا کہ وہ مرد درزیوں کے مقابلے مخنث افراد کی دکان پر خود کو زیادہ مطمئن محسوس کرتی ہیں۔

اپنا کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے جیا نے بتایا کہ ابتدائی طور پر انہیں کرائے پر دکان دینے سے منع کردیا گیا تھا اور بڑی محنت کے بعد ایک شخص انہیں کرائے پر دکان دینے کے لیے راضی ہوا۔

جیا کی خواہش ہے کہ وہ اپنی دکان کو بوتیک میں تبدیل کریں اور وہ مغربی و مشرقی فیشن کے امتزاج سے بنے لباس خواتین کے لیے تیار کریں جیا کے ساتھ دیگر دو مخنث افراد بھی ان کے ساتھ ٹیلر شاپ پر کام کرتے ہیں-

واضح رہے کہ جیا نے مخنث افراد کو بااختیار بنانے والی تنظیم ’ٹرانس پرائڈ سوسائٹی‘ کی مدد لی جس نے دیگر اداروں کی معاونت سے کراچی کے کاروباری علاقے محمد علی (اے ایم ) جناح روڈ پر دکان حاصل کی۔تھی مذکورہ دکان کھولے جانے کی افتتاحی تقریب میں سندھ حکومت کی خواتین کی کمیشن کی چیئرپرسن اور کراچی بار کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی شرکت کی تھی-

خواجہ سرا افراد کے اسٹاف پر مبنی ٹیلر شاپ کھولے جانے کے موقع پر ٹرانس پرائڈ سوسائٹی کی سربراہ نیشا راؤ نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ مذکورہ پروگرام مخنث افراد کو خودمختار بنانے کی طرف پہلا قدم ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مخںث افراد کی تعداد 10 ہزار تک ہے، تاہم مخنث افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ایسے افراد کی تعداد 3 لاکھ سے زائد ہے۔

پاکستان میں مخنث افراد کو تیسری جنس کی قانونی حیثیت حاصل ہے، عدالتی حکم کے بعد ان کے شناختی کارڈ پر تیسری جنس لکھا جاتا ہے علاوہ ازیں ملک میں مخنث افراد کو ووٹ دینے اور سیاست میں حصہ لینے سمیت وہ تمام حقوق حاصل ہیں، جو دیگر عام شہریوں کو حاصل ہیں۔

کراچی میں خواجہ سراؤں کی پہلی کمرشل ٹیلر شاپ پر کام کا آغاز

Leave a reply