مقبوضہ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے خلاف کارگل اور دراس میں زبردست ہڑتال کی گئی۔ اس سلسلے میں کارگل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بدھ اور جمعرات کو کارگل میں دو روزہ احتجاجی مظاہرہ اور ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔
بھارت نے جموں و کشمیر کے بعد ایک اور ضلع میں دفعہ 144نافذ کر دی، جانئے اس رپورٹ میں
بھارتی میڈیا کے مطابق دراس کے مقامی باشندوں اور رہنماﺅں نے بھی دفعہ 370 اور 35 اے ہٹائے جانے مخالفت شروع کر دی ہے۔ وہ لداخ کے ساتھ دراس اور کارگل کو ملائے جانے کو لے کر بھی خوش نہیں ہیں۔
بدھ کو مودی حکومت کے فیصلے کے خلاف دراس، کارگل، سانکو اور کارگل ضلع کے دوسرے علاقوں میں زبردست ہڑتال ہوئی۔ کارگل جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں سیاسی لیڈروں کے ساتھ مذہبی لیڈر بھی شامل ہیں۔ دراس کی بی جے پی یونٹ نے بھی اس ہڑتال کی کھل کر حمایت کی ہے۔
دراس میں بی جے پی لیڈر بلال احمد کا کہنا ہے کہ ”ہم لداخ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ حکومت یا تو کارگل کو الگ مرکز کے ماتحت ریاست بنائے یا پھر ہمیں جموں و کشمیر کے ساتھ رہنے دے۔ جموں و کشمیر سے ہمارے کافی رشتے ہیں جب کہ لداخ سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ وہاں کے اور ہمارے رسم و رواج، رہن سہن اور کھانے پینے میں بھی بہت فرق ہے۔ ہماری فیملی کی بہت سی خواتین کی شادی کشمیر میں ہوئی ہے۔ کارگل یوں بھی کشمیر کے نزدیک ہے۔“
دوسری طرف نیشنل کانفرنس لداخ کے رہنما اور کونسلر غلام نقوی کا ایک ہی مطالبہ ہے اور وہ یہ کہ ہم لداخ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ ان کے بقول سیاسی پارٹی سماج اور ریاست میں سے ہی آتے ہیں، اگر ریاست کا ہی احساس نہیں ہوگا تو پھر سیاسی پارٹی کا بھی کیا کرنا؟ ہمارے لیڈر دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ہی نظر بند ہیں۔ ہم آسانی سے پیچھے ہٹنے والے لوگ نہیں ہیں۔ ہم مرنے کے لیے تیار ہیں۔“
نقوی نے عدالت میں جانے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ”ہم کسی بھی مرکز کے ماتحت ریاست کا حصہ ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ کیا کوئی حکومت اس طرح قانون بدلتی ہے۔ لوگوں کو گھروں میں بند کر انھوں نے ایسا کیا ہے۔“
بلال احمد بھی بی جے پی لیڈر ہیں لیکن مودی حکومت کے مذکورہ فیصلہ کے خلاف ہیں۔ بلال احمد کے مطابق 35 اے ہٹا کر حکومت نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ ”جس طرح سے لیڈروں کو نظر بند کیا گیا ہے وہ شرمناک ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مودی حکومت نے طاقت کے زور پر ایسا کیا ہے۔“