"کرتارپور میں ہورہا ہے خلاف توقع اور فکر انگیز کام” تحریر : طارق محمود

0
42

2 روز قبل چند دوستوں کے ساتھ کرتار پور جانے کا اتفاق ہوا تقریباً 140 کلومیٹر سفر کرنے کے بعد جب گیٹ پر پہنچے تو پاکستان رینجرز کے جوانوں نے ہیمں فوراً روک لیا اور کہا کہ آپ کیمرہ لے کر اندر نہیں جا سکتے۔ کیمرہ یا مائیک اندر وہی لے کر جا سکتے ہیں جن کے پاس آئی ایس پی آر کا اجازت نامہ نا ہو یہ سننے کے بعد ہم نے سیکورٹی اہلکاروں سے بحث کرنا مناسب نا سمجھا اور اپنے کیمرے باہر رکھ کر اندر چلے گئے جب دربار کرتار پور صاحب میں داخل ہوئے تو وہاں کا منظر ہی کچھ نرالہ تھا ہم نے تقریباً 50 کے قریب کیمرے لوگوں کے پاس دیکھے جو وہاں کے مناظر کو محفوظ کر رہے تھے دوستوں نے استفسار کیا کہ یار ہمیں کیمرے کی اجازت نہیں دی گئی پر یہاں تو لاتعداد کیمرے ہیں یہ کیسے اندر ا گئے ہیں دوستوں کا کہنا تھا کہ یار سب باتیں ہیں پورا سسٹم ہی خراب ہے جس کی اپروچ ہوتی ہے وہ کیمرہ اندر لے آتا ہے ورنہ ایسا کون سا خطرہ ہے جو ہمارے کیمرے سے درپیش ہے اور دوسروں کے کیمرے اس سے استثنیٰ ہیں دوسری بات جس نے دلخراش کیا وہ یہ تھی کہ ہم عام شہریوں کی طرح لائن میں لگ گئے اور سیکیورٹی اہلکار بھی لوگوں کو لائنوں میں رہنے کا بار بار کہہ رہے تھے اسی دوران گاہے بگاہے چند لوگ اہلکاروں سے ا کر کچھ کہتے اور نظم و ضبط کے سارے اصول بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کو فوراً اندر بھیج دیا جاتا۔ یوں نظم و ضبط قائم کروانے والے ہی اس کی دھجیاں بکھیرتے رہے۔ واپسی پر جب گیٹ سے باہر نکلنے لگا تو سوچا ساری صورتحال پر اہلکاروں کا مؤقف ہی لے لوں جب سوال کیا کہ حضور ہمیں کیمرہ کی اجازت نہیں دی گئی لیکن اندر تو بے شمار کیمرے تھے وہ کس دستور کے تحت اندر گئے تو اہلکار کا جواب سن کر جو سکتا طاری ہوا وہ شائد ابھی بھی قائم ہے رینجرز اہلکار کا کہنا تھا کہ صاحب آپ کو پتا ہے جنگل کا قانون ہے جو پروٹوکول والی گاڑیاں ہوتی ہیں ان کو ہم چیک نہیں کرتے ۔ ان میں کیا کچھ اندر چلا جاتا ہے ہمیں کچھ پتا نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ اوپر سے فون آنا ہوتا ہے جس کی کال ا جائے اس کو ہم منع نہیں کر سکتے۔ آپ کو ہماری مجبوریوں کو سمجھنا ہو گا اور گزارہ کرنا ہوگا آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں جیسے شہری جو بڑی مشکل سے وقت نکال کر اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد جب محتلف سیاحتی یا مذہبی مقامات پر پہنچتے ہیں اور اپنے کیمرے سے پاکستان کا مثبت چہرہ دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو کیمرہ اندر لےجانے سے منع کیوں کیا جاتا ہے حالانکہ غیر ملکی سیاحوں کو کیمرہ اور ڈرون سے کبھی منع نہیں کیا گیا۔ کیا سیکورٹی خدشات صرف اور صرف میرے جیسے دیگر پاکستانی سیاحوں سے لاحق ہیں؟ اور سیکورٹی اہلکاروں کا پروٹوکول یا اپروچ والا رویہ درست ہے اگر ایسا ہے تو پھر سیاحت سے اور پاکستان کے مثبت چہرہ کو دیکھانے سے میری توبہ۔

Leave a reply