کارواں_ہمارا
ترجیحات بدل گئیں
انداز بدل گئے
طریقہ کار بدل گیا
چالیں بدل گئیں…
سب کچھ بدل گیا… تبدیلی آ گئی…!
لیکن اسلام نہیں بدلا.
خلفائے راشدین سے لیکر آج تک ہر موقع پر اسلام کا قافلہ چلتا رہا…! سپہ سالار، شہسوار اور پیادے اپنی اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق ساتھ چلتے رہے. اپنا وقت ختم ہونے پر ساتھ چھوڑتے رہے لیکن قافلہ مسلسل چلتا رہا. تاریخ رقم ہوتی رہی… شکست اور فتوحات لکھی جاتی رہیں. شہدا کو اچھے طریقے سے اور غداروں کو بطور عبرت یاد کیا جاتا رہا.
قافلے کے سفر میں سفر کی زمین بدلتی رہی… کبھی صحرا…کبھی پہاڑ… کبھی دریا… کبھی سبزہ زار…! کبھی گھوڑے سے اتر کر پیدل چلنا مناسب ہوتا کبھی سبک رفتاری سے گھوڑا دوڑانے میں عافیت ہوتی. کبھی چھوٹے قافلے کو کسی پر امن علاقے یا شہر میں پہنچنے کے لئے بڑے قافلے کا ساتھ دینا پڑتا یعنی "اپنا جھنڈا” لپیٹا پڑتا … اور کبھی دشمن سے خود کو محفوظ کرنے کے لئے کسی گھاٹی میں پناہ لینی پڑتی… اتنے دن تک اور اس وقت تک… جب تک دشمن کو یقین نہ ہو جائے کہ یہ اسلامی قافلہ صفحہِ ہستی سے مٹ چکا ہے.
کبھی قافلے والوں میں امید پیدا کرنے کے لیے اور دشمن کو خوفزدہ کرنے کے لیے فتح و نصرت کے ترانے گائے جاتے… اور کبھی قافلے سے غداروں کو سامنے لانے اور قافلے سے نکالنے کے لیے اپنی بہت ساری سرگرمیاں ترک کرنی پڑتیں.
قافلے چلتے رہے…. وقت بدلتا رہا. دشمن کی چالیں بدلتی رہیں… دشمن کے ہتھیار بدلتے رہے. اور اسی حساب سے قافلے والوں کی ضروریات بدلتی رہیں… ضروریات بدلنے سے ترجیحات بدلتی رہیں….!
ہر موقع پر جب بھی کسی نے کہا کہ میں گھوڑے پر ہوں تو پیدل نہیں چل سکتا یا میں پیدل ہوں تو گھوڑا نہیں چلا سکتا… وہ قافلے سے پیچھے رہ گیا. جس نے بھی کہا کہ مجھے تیر چلانا تو آتا ہے لیکن میں بارود والی بندوق چلانا نہیں سیکھوں گا یا نیزہ چلانا آتا ہے لیکن منجنیق نہیں چلا سکتا وہ بھی پیچھے رہ گیا. مقصد منزل اسلام کو پانا تھا… منزل مقصود جنت تھی اس لیے منزل کی طرف رخ کر کے، جنت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے باقی ہر چیز بدلتی رہی. قرآن وہی رہا ،رسول کے فرمان وہی رہے… البتہ پڑھنے والے پڑھانے والے … سننے والے سنانے والے بدلتے رہے…!
اس قافلہ کے راستوں میں جو شہید ہو گئے وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ انہیں اور کسی چیز کی طلب نہیں رہی اور جو بچ گئے اور اپنی حالتِ ایمان کو قائم رکھتے ہوئے وہ اپنا اجر اللہ کے ہاں لکھوا چکے اور کوئی ان سے ان کا اجر نہیں چھین سکتا.
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر موقع پر قافلے کا نام بدلتا رہا لیکن اہل قافلہ کے دلوں میں اپنے سابقہ سپاہ سالار کی محبت کم نہیں ہوئی. اسلام کے لیے نور الدین زنگی کی اپنی خدمات تھیں جو اس کے ساتھ منسوب ہیں اور صلاح الدین ایوبی کی اپنی فتوحات جو اس کے ساتھ منسلک ہیں. محمد بن قاسم کی فتوحات محمد بن قاسم کی ہیں لیکن محمود عزنوی کے حملے محمود عزنوی کے نام سے ہی رقم ہیں. سب اسلام کے لیے کوشش کرتے رہے لیکن اپنے اپنے وقت پر. پہلے سپہ سالار کے جانے سے دوسرے کو فرق نہ پڑا اور نہ پڑنا چاہیے اور دوسرے کے آنے سے پہلے کی عزت و تکریم میں کمی نہیں ہوئی اور نہ ہونی چاہیے. ہر ایک نے اپنے اپنے موقع پر اسلام کے لیے اپنی اپنی خدمات سرانجام دیں.
کبھی ایسا بھی ہوا کہ شاہ اسماعیل شہید اور مجاہدین بالاکوٹ کی طرح سارے کا سارا قافلہ مٹ گیا (بظاہر ) لیکن اسلام پھر بھی زندہ رہا… ان لوگوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں ہوئی. وہ آج بھی اللہ رب العزت کے پاس اور تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں ان شا اللہ.
فکری اور تبلیغی معاملے کو دیکھیں تو محدثین کرام اور ائمہ عظام نے اپنے اپنے وقت میں، اپنی اپنی علمی قابلیت اور فقاہت سے دین اسلام کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے کوششیں کی اور اس معاملے کو سمجھنے کے لیے اگر شیخ عبدالقادر جیلانی صاحب کی غنیتہ الطالبین، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی حجتہ اللہ البالغۃ ، اور اسی طرح مولانا مودودی صاحب، ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تعلیمات و افکار کا جائزہ لیا جائے تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ سب کی کوشش غلبہ اسلام تھی اور اپنی طرف سے بھرپور کوشش تھی. ہم ان کی خوبیوں کو سراہتے ہیں اور انسان ہونے کے ناطے ان سے ہونے والی غلطیوں کو اس لیے یاد رکھتے ہیں تا کہ وہ دوبارہ ہم سے نہ ہوں.
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی کوشش غلبہ اسلام کے لیے نہیں تھی یا ان کی وجہ سے آج ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملا. وہ ہمارے قافلے کے اسلاف تھےاور اپنی جزا اللہ کے ہاں لازمی پائیں گے … ہمارے دل میں ان سب کی توقیر ہونی چاہیے اور یہ لازم سمجھنا چاہیے کہ پورا دین نہیں تو دین کا کچھ نہ کچھ حصہ یا کافی حصہ ہمارے پاس ان کے ذریعے پہنچا اس لیے وہ بھی ہمارے اجر میں لازمی شامل ہیں. اور ہم ان کے احسانات کا بدلہ کبھی نہیں چکا سکتے.
یہ قافلے یونہی چلتے رہیں گے. لوگ، مسافر، بدلتے رہیں گے لیکن اسلام وہی رہے گا. تحریکوں کے نام جماعتوں کے نام بدلتے رہیں گے. ہر بندہ رب العزت کی مرضی کے تحت اپنا وقت گزار کر اپنا کام پورا کرے گا. کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو ساری زندگی ایک ہی قافلے میں رہے… کچھ ایسے ہوں گے جو ایک زندگی میں دو قافلوں میں سفر کرتے رہے ہوں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے فتنوں کے دور میں آنکھ کھولی ہو گی… سابقہ قافلے کی فتوحات سنی ہوں گی لیکن اگلے قافلے کو ترتیب دیتے دیتے، مستقبل میں اگلے آنے والے قافلوں میں شامل ہونے اور ان کی عظمتیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی حسرت لیے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے.
لیکن سب سے زیادہ افسوس ان لوگوں پر ہے جو پرانے قافلے پر نکتہ چینی تو کرتے ہیں اور اس کے "ختم ہونے” کی مختلف وجوہات تو بیان کرتے ہیں لیکن نئے قافلے کو ترتیب دینے کی کوشش یا اس کے ساتھ قدم ملانے کی جرات نہیں کرتے.
عین ممکن ہے کہ کچھ احباب کو قافلوں کی ترتیب و تخریب کے حوالے سے میری "حوصلہ افزا باتیں ” انتہائی تلخ اور حیران کن محسوس ہوں لیکن یقین کریں آنسو چھپا کر مسکرانے اور حوصلہ دینے والے کی مسکراہٹ بھی اتنی ہی حیران کن ہوتی ہے اور اس موقع پر ہر انسان اسی انداز میں اللہ سے ڈر اور امید کے درمیان موجود ہوتا ہے.
رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ.(آل عمران :08)
ترجمہ: اے ہمارے رب، ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مت ڈال اور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرما۔ بےشک تو ہی عطا فرمانے والا ہے۔
تحریر :سفیر اقبال #رنگِ_سفیر








