کشمیری خواتین کے جنسی استحصال کو بھارتی فوج بطور ہتھیار استعمال کرنے لگی

کشمیری خواتین کے جنسی استحصال کو بھارتی فوج بطور ہتھیار استعمال کرنے لگی
باغی ٹی وی رپورٹ : کشمیر میں خواتین کے جنسی استحصال کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ان واقعات کو فوجی مقاصد یعنی سیاسی دہشت گردی ، آزادی کی آواز دبانے اور سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے- گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری خواتین اپنے وطن میں امن اور بنیادی حقوق کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہی ہیں –
کشمیرکی مائیں اب بھی 1991 میں کشمیری خواتین سے ہونے والے اجتماعی زیادتی کے واقعات کا سوچتی ہیں تو خوف سے کانپ جاتی ہیں۔ کشمیر کی نوجوان لڑکیوں کو بھی ان دیکھی آفت کا سوچ کر ہول اٹھتے ہیں جو یہ سنتے سنتے بڑی ہوئی ہیں کہ آزادی کشمیر کی اگر جنگ ہوئی تو جانیں جائیں گی اور اموات کی گنتی ہو جائے گی مگر کتنی کشمیری عورتوں کی عزتیں پامال ہوں گی، قابض فوج کے ہاتھوں کتنوں کے جسم نوچے جائیں گے، ان دردوں کا شمار ممکن نہ ہوگا۔
5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد یو پی سے بی جے پی کے رہنما وکرام سنگھ سائنی نے پارٹی کارکنوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ان کے وزیراعظم مودی نے کشمیر کے راستے کھول دیے، بھارتی جنتا اور خاص طور پر مسلمان لڑکوں کو خوش ہونا چاہیے کہ اب وہ گورے رنگ کی کشمیری لڑکیوں سے شادی رچا سکیں گے۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق ایسے ہی بھارتی ریاست ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھتر نے ایک جلسے میں کہا کہ ہریانہ کی آبادی میں جنس کے تناسب کو برابر کرنے کے لیے کشمیر سے گوری لڑکیاں لے آئیں گے۔ ان کی اس بات پر جلسے کے شرکا نے ایک ٹھٹھا لگایا اور تالیاں بجائیں جیسے کشمیر کی لڑکیاں نہ ہوئیں ریوڑیاں ہیں جو جب میٹھا کھانے کا جی چاہا اٹھا لائیں گے۔
شاید کسی کو بھارتی حکمران جماعت سمیت مذہبی شدت پسندوں کی اس سوچ پر حیرت ہو رہی ہو، شاید کسی کو یہ گمان ہو کہ یہ محض سیاسی بیانات ہیں، مگر کشمیر کی 70 سالہ سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کشمیری خواتین کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ کشمیری خواتین ہمیشہ سے نشانے پر رہی ہیں۔
القمرآن لائن کے مطابق نوے کی دہائی میں بین الاقوامی میڈیا میں ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے کہ پوری بارات کے سامنے نوبیاہتا دلہن کی عصمت دری کی گئی۔ یہ سب صدیوں پرانی تاریخ نہیں ابھی کوئی 30 سال پرانی باتیں ہیں جن کے متاثرہ خاندان اب بھی اس ناسور کو دل میں لیے بیٹھے ہیں۔
بھارتی فوج کی جانب یہ عذر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ گھروں پر سرچ آپریشن اور گھریلو خواتین سے تفتیش اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ وادی کے رہائشی کشمیری عسکریت پسندوں کو پناہ دیتے ہیں۔ تاہم گھروں پر ہونے والے یہ سرچ آپریشن صرف عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاون نہیں، کشمیریوں کو نفسیاتی شکست دینے کا ایک حربہ رہا ہے۔
متنا زعہ علاقوں میں خواتین پر سب سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور مقبوضہ علاقوں میں وہ مظالم کا شکار بنتی ہیں یہی صورتِ حال مقبوضہ کشمیر میں بھی ہے- ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق کشمیر انسانی ظلم وجبر کی بدترین مثال ہے اوربالخصوص وہاں عورتوں کے حقوق کی صورتِ حال انتہائی دگرگوں ہے- کشمیر میں خواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں جو یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) اور خواتین کے حقوق کے عالمی بل یعنی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاس کئے گئے Convention on the elimination of all form of discrimnation against women (CEDAW)کے تحت دیئے گئے ہیں یہ بل عورتوں کو سیاسی ،معاشرتی ، ثقا فتی اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں بنیادی حقوق اور آزادی فراہم کرتا ہے- القمرآن لائن کے مطابق بد قسمتی سے عالمی قوانین کا کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کوئی اثرنہیں ہے اور بھارتی حکومت کشمیر میں عوام بالخصوص خواتین کو اِن کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کر رہی- یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومتیں عالمی مبصرین اور غیر ملکی صحافیوں کو جموں و کشمیر میں داخلہ کی اجازت نہیں دیتیں –
کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری بنا خوف و خطر کی جاتی ہے- بھارتی حکومت کے جبر، انتقامی کاروائی اور معاشرے میں بدنامی کے خوف کی وجہ سے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے- مزید برآں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کردہ سیاہ قوانین قابض افواج کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس سے کشمیریوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ ہوا ہے –
بیوہ خواتین اپنے مقتول شوہروں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں ان کیلئے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے روزگار کمانا ناممکن بن گیا ہے – ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق یتیموں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ کشمیر میں یہ حالات حادثاتی نہیں بلکہ انہیں فوجی مقاصد یعنی سیاسی دہشت گردی ، آزادی کی آواز دبانے اور سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

Comments are closed.