کراچی کو اتنا بارشوں کے پانی نے نہیں ڈبوایا جتنا کے الیکٹرک نے ڈبویا ہے۔ کراچی کو بجلی سپلائی کرنے کا ذمہ دار یہ دارہ کراچی کو چمٹی ہوئی جھونک سے کم نہیں۔
اس کی تباہی کا آغاز پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا۔ بے نظیر بھٹو نے اس کی نجکاری شروع کی اور مشرف دور تک پہنچتے پہنچتے اس کے 76 فیصد شیر بیچ دئیے گئے۔ مشرف دور میں ایک عرب کمپنی نے اس کے اکثر شیر 1600 ارب روپے میں خرید لیے۔
اس کے بعد آیا کرپشن کنگ آصف زرداری جس نے حاتم طائی کی قبر کو لات مارتے ہوئے اس عرب کمپنی کو سال 2009ء میں 1300 ارب روپے واپس کر دئیے۔ ان میں سے خود زرداری کو کتنے واپس ملے ہونگے اس کا اندازہ خود کیجیے۔
یوں سمجھ لیں کہ اس کمپنی کو پورا کے الیکٹرک صرف 300 ارب روپے میں مل گیا۔ لیکن بات یہیں پہ ختم نہیں ہوئی۔
مذکورہ کمپنی نے کے الیکٹرک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ اس کے 1200 کلومیٹر لمبے تانبے کے تار ہٹا کر سستے ایلومینیم کے تار لگا دئیے۔ جو تانبا ہٹایا گیا اور لاکھوں ٹن وزنی تھا۔
اس تانبے کی قیمت ایک اندازے کے مطابق 750 ارب روپے تھی۔ پھر وہ تار اچانک "غائب” بھی ہوگئے۔ اندر کی خبر یہ ہےکہ وہ تانبا اس عرب کمپنی کے ساتھ ملکر زرداری اور فریال تالتپور نے بیچ دیا اور 750 ارب روپے ہڑپ کر گئے۔
کراچی کے تار چوری کر کے اس عرب کمپنی کو کے الیکٹرک تقریباً مفت میں مل گیا۔ اس واردات کے بعد زرداری کو متحدہ ارب امارات اور دبئی میں سینکڑوں ایکڑ زمینیں ملیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو دبئی حکومت اور عربوں کی بھرپور سپورٹ بھی ملنے لگی۔
آپ نوٹ کیجیے زرداری ہمیشہ دبئی بھاگتا تھا اور وہیں اس کی پارٹی میٹنگز بھی ہوتی تھیں۔
ایلومینیم کے تار لگانے کا کراچی کو بہت نقصان ہوا۔ ان سستے اور جلدی پگھل جانے والے تاروں کی وجہ سے کم از کم چار سے پانچ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ضروری ہے ورنہ تار پگھل سکتے ہیں۔ خاص طور پر گرمیوں میں۔
یہ تار مسلسل گرم ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں بجلی کے لیے مزاحمت کی وجہ سے یہ ہر دو تین منٹ بعد میٹر کو تگنی رفتار سے گھما دیتے ہیں جسکی وجہ سے عوام کو کمر توڑ بجلی کے بل موصول ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے کے الیکٹرک سالانہ 30 تا 35 ارب روپے کما رہی ہے۔ یہ زہن میں رہے کہ ان کی انویسٹمنٹ پیسے واپس ملنے اور تانبا بیچنے کے بعد زیرو سے کچھ زیادہ ہوگی۔
تانبا ایلومینیم سے 3 گنا مہنگا ہے۔ وہی تانبا اب اگر دوبارہ خریدنا پڑگیا تو کم از کم 2500 ارب روپے میں پڑے گا۔ یہ رقم پاکستان کے پاس کہیں سے نہیں آسکتی۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ جو 1300 ارب کمپنی کو واپس کیے گئے یا جو 750 ارب کا تانبا چوری کیا گیا ان میں ایک بڑا ڈیم آرام سے بن سکتا ہے جو دو روپے فی یونٹ بجلی کے علاوہ پانی بھی دیتا ہے۔ کے الیکٹرک سے دگنی بجلی بنا کر دیتا۔
کے الیکٹرک 18 سے 20 روپے فی یونٹ بنا رہا ہے۔
اس سارے معاملے کے خلاف ہماری دنیا میں 122 ویں نمبر پر آنے والی سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی گئی لیکن آفرین ہے ہماری عدلیہ پر جو اس قسم کے معاملات میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔ الٹا جن کے خلاف شکایت کی جاتی ہے ان کو سٹے آرڈر دے دیا جاتا ہے۔
یہ ساری وجوہات ہیں جو کراچی میں تباہ کن لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور بجلی کی عدم دستیابی ہی پانی کی قلت بھی پیدا کرتی ہے۔
یہ صرف ایک مثال ہے آئی پی پیز کی لوٹ مار کی۔ پاکستان میں بجلی بنانے والے نجی ادارے پاکستان کی معیشت کو چمٹی ہوئی خون آشام جھونکیں ہیں۔ یہ جھونکیں جب تک ہم اکھاڑ کر پھینک نہیں دیتے ہماری معیشت نہیں سنبھل سکتیں۔
@iamAhmadokz








