خلاء میں رابطے!!! — ڈاکٹر حفیظ الحسن

0
105

یہ مویا ناسا جو آئے روز دنیا کی "ذہین ترین قوم” کو بے وقوف بنانے کے لئے نئے نئے سپیس کرافٹ، خلائی دوربینیں اور روبوٹ چھوڑتا رہتا ہے۔ یہ ان سے خلا میں رابطہ کیسے رکھتا ہے؟ کیونکہ عقلِ "سلیم” یا منیر تو یہ کہتی ہےکہ خلا میں ٹیلی نار، یوفون یا زونگ کے کھمبے تو ہیں نہیں کہ پیکیج کرایا اور گھنٹوں لمبی باتیں، "شونوں مونوں” والے میسیجز یا جگتوں والے لطیفے بھیج کر ٹائم پاس کرنا شروع کر دیا۔
تو اسکا جواب ہے ڈیپ سپیس نیٹ ورک!!

ڈیپ سپیس نیٹ ورک دراصل زمین پر بڑے بڑے ڈش کی طرح کے ریڈیو اینٹناز کا ایک جال ہے۔ جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ اینٹیناز آسٹریلیا، کینبرا، کیلیفورنیا ، سپین وغیرہ میں دن رات آسمانوں میں ناسا اور دوسری ایجنسیوں کے بھیجے گئے مشنز سے سلام دعا کرتے رہتے ہیں۔ ان انٹیناز کو زمین پر کم و بیش ایک ہی فاصلے پر رکھا گیا ہے کہ زمین کی گردش کے باعث ایسا نہ ہو کہ کوئی وقفہ آئے جب خلا سے بھیجا جانے والا سگنل پکڑنے کے لیے کوئی بھی اینٹینا موجود نہ ہو اور سگنل ضائع ہو جائے۔

خلا میں موجود سپیس کرافٹس زمین پر ریڈیو سگنل کے ذریعے تصاویر اور اپنی موجودہ جگہ کا پتہ دیتے ہیں ۔ ان سگنلز کو دنیا بھر میں یہ ڈیپ سپیس اینٹنا موصول کرتے ہیں ۔ اسکے علاوہ یہ نیٹ ورک زمین سے سپیس کرافٹ کو ہدایات بھیجتا ہے کہ اب کیا کرنا ہے، کونسی تصاویر لینی ہیں، کس سمت مڑنا یے وغیرہ وغیرہ۔

اس نیٹ ورک میں موجود اینٹناز کمزور سے کمزور سگنل کو بھی ہماری پولیس کیطرح فورآ سے دھر لیتے ہیں۔۔اسکا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ 1977 میں ناسا کے دو سپیس کرافٹ Voyager 1 اور Voyager 2 جو 45 سال بعد اربوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے نظامِ شمسی کے کناروں تک پہنچ چکے ہیں ، یہ ڈیپ سپیس نیٹ ورک ان سے آنے والے سگنلز بھی پکڑ لیتے ہیں اور اب تک مسلسل ان سے رابطے میں ہے۔ Voyager سپیس کرافٹس سے آنے والے سگنل بے حد کمزور ہیں۔ کتنے کمزور؟ آپکی معمولی سی ڈیجیٹل گھڑی کو چلانے والے برقی سگنل سے بھی 20 ارب گنا کمزور!!

یہ اینٹیناز ان مختلف سپیس کرافٹ کے سگنلز کو موصول کر کے اسے ناسا کی کیلیفورنیا میں سپیس فلائٹ آپریشن فیسلیٹی کو بھیجتے ہیں جہاں ان سگنلز کو پراسس کر کے ان میں موجود تصاویر یا دیگر اہم معلومات کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور دنیا بھر کے سائنسدانوں کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے۔ سائنسدان ان تصاویر اور ڈیٹا کی مدد سے منطقی نتائج نکالتے ہیں، تحقیقی مقالہ جات لکھتے ہیں اور کائنات کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔

مریخ پر موجود ناسا کی روورز جیسے کہ Curiosity یا حال ہی میں بھیجی جانی والی Preservernce بھی اس طرح سے زمین پر رابطے میں رہتی ہے مگر یہ ایک اور موثر طریقے سے بھی زمین پر ڈیٹا اور تصاویر بھیجتی ہے۔ اور وہ ہے بذریعہ Mars Reconnaissance Orbiter، یہ مریخ کے گرد گھومتا ایک سٹیلائٹ ہے جو ان روورز سے ڈیٹا اکٹھا کر کے زمین پر ڈیپ سپیس نیٹورک تک اسے بھیجتا ہے۔ اس طرح زیادہ آسانی سے ڈیٹا منتقل ہوتا ہے۔

Leave a reply