خلیل اللّٰہ کی یاد…!!!
[تحریر:جویریہ بتول]۔
ذو الحجہ کا چاند طلوع ہونے والا ہے اور یہ وہ حرمت والا مہینہ ہے کہ جس کی عظمت فضیلت اور اس میں بجا لائے گئے اعمال کی اہمیت بہت ارفع ہے…
استغفار و انابت…
تسبیح و تہلیل اور تحمید…
مالی قربانی…
اللّٰہ کی رضا کے لیئے سب کچھ قربان کرنے کے عہد…
حج بیت اللّٰہ…
اور یومِ عرفہ کا روزہ…
جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یکفر السنۃ الماضیۃ والباقیۃ…(صحیح مسلم)۔
یعنی” گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے…!!!”
لیکن یہ مہینہ اور اس کےان دس ایام میں بجا لائی جانے والی عبادات اللّٰہ تعالٰی کے نزدیک کسی بھی دن میں کیئے گئے عمل سے اس قدر محبوب اور افضل ہیں کہ اللّٰہ کی راہ میں لڑنے والا بھی اس فضیلت کو نہیں پا سکتا،لیکن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو اپنے مال و جان کے ساتھ نکلا اور لوٹ کر نہ آیا تو وہ لاریب بہت فضیلتوں کا مستحق ہے۔
کیونکہ یہ وہ فضیلت بھرے ایام ہیں جن میں تمام عبادات نماز،روزہ،حج،مالی قربانی،تسبیحات و تکبیرات جمع ہو جاتی ہیں…!!!!
یہ مہینہ ہمیں خواہشاتِ نفس کی قربانی،اللّٰہ کی رضا کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے کا عہد کرنے والے ابراہیم علیہ السلام کی یاد بھی دلاتا ہے…
وہ ابراہیم علیہ السلام جن کے بارے میں اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا:
ولقد اتینا ابراھیم رشدہ من قبل…
[الانبیآء]۔
"اور یقینًا ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس سے پہلے ہی سوجھ بوجھ عطا کی تھی…”
وہ لڑکپن میں ہی غور و فکر کے عادی…
رب کی وحدانیت کا پرچار کرنے والے…
جو اپنے باپ اور قوم سے سوال کرتے کہ یہ مورتیاں جنہیں تم پوجتے ہو…تمہارے نفع و نقصان کی مالک ہیں؟
وہ جواب دیتے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے،
تب ابراھیم علیہ السلام پکار اٹھتے کہ تم اور تمہارے آباء سبھی گمراہ ہو…!!!
اللّٰہ تعالٰی کو اپنے ابراھیم کی یہ ادائیں اس قدر پسند آئیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو آزماتا چلا گیا…
اور رب کا موحد بندہ اور پیغمبر ان تمام آزمائشوں پر پورا اترتا چلا جاتا ہے تاوقتیکہ امام الناس اور خلیل اللّٰہ کے منصب پر فائز دکھائی دیتا ہے…!!!
وہ جوانی میں قوم کے تراشیدہ بتوں کو کلہاڑے کی ضرب سے پاش پاش کرنے والا بت شکن ان سے سوال کرتا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کھاتے نہیں ہو؟
تمہیں کیا ہے کہ بولتے بھی نہیں؟
تب ابراہیم اپنی انہی اداؤں سے قوم کو لاجواب کر دیتا ہے،اور وہ آنکھیں جھکائے یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ بات تو اس کی واقعی ٹھیک ہے لیکن اس کو مان لینا اَنا پر گہری ضرب تھی…!!!
وہ ابراہیم جو انتہائی بڑھاپے میں اولاد کی نعمت سے سرفراز کیئے جانے کے بعد امتحانات کے ایک تسلسل سے گزرتے ہیں…
یہاں تک کہ اپنے لاڈلے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا خواب آتا ہے…
وہ ابراہیم جن کے امتحانات کا تذکرہ اللّٰہ تعالٰی نے خود یوں فرمایا کہ:
"جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں میں آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللّٰہ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کا امام بناؤں گا…”
(البقرۃ)۔
وہ نو مولود کو اپنے سے دور تنہا بے آب و گیاہ وادی میں بیوی سمیت چھوڑنے سے لے کر اب اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے تک کا سفر ابراہیم علیہ السلام نے، نہایت صبر،کمال استقامت اور حوصلے سے کاٹا تھا…
اب اس آزمائش پر بھی پورا اترنے کے بعد اللّٰہ تعالٰی نے اس بہت بڑی آزمائش قرار دے کر اس پر پورا اترنے پر ابراہیم علیہ السلام کو سرخرو فرمایا اور اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں مینڈھا نازل فرما دیا…!!!
ذرا سوچو کہ وہ بیتِ عتیق،نور و رحمت کے گھر کی طرف دیوانہ وار لپکتے لوگوں کا رش بھلا کس کی دعا کا ثمر ہے؟
وہ کعبہ کی بنیادوں کو بلند کرنے والے ابراہیم اور اس کی آبادی کے لیئے اللّٰہ کے حضور دعائیں مانگنے والے ابراھیم کی یاد کے مناظر…
واذ یرفع القواعد من البیت…
"اورجب وہ اس گھر کی بنیادیں بلند کر رہے تھے…
واتخذو من مقام ابراھیم مُصَلًّی…
"اور تم مقامِ ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو…(البقرۃ)۔
وہ صفا و مروہ کے چکر کس عظیم گھرانہ کی یاد سے وابستہ ہیں…؟
ان الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ…
بھلا یہ جانوروں کی قربانی کس کا فدیہ قرار پائی تھی؟
آہ…!!!
وہ جو سارے کا سارا گھرانہ صبر و ثبات ،عزم و حوصلہ،برداشت و استقامت اور ایمان و عمل کی واضح نشانی تھا…
رب کی وحدانیت اور رضا پر سب کچھ لٹا دینے کا عہد کیئے جانبِ منزل رواں دواں رہا کہ امر ہو گیا…
وہ ابراہیم جس نے قوم کو شروع میں ہی کھرا کھرا جواب دے دیا تھا کہ:
انی ذاھبٌ الی ربی سیھدین¤
"میں تو ہجرت کر کے اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں،وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا…(الصفّٰت)۔
اور پھر تا قیامت رہبری اور امامت کا تاج سج گیا…
ملتِ ابراہیم کے حقیقی پیروکار رب کے محبوب کہلائے…
آگ کے گلزار بننے سے ابد تک سلامتیاں ہی سلامتیاں ابراہیم علیہ السلام کا خاصہ کہلائیں:
"ابراہیم علیہ السلام پر سلام ہو،
ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں،بے شک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے…”
(الصفّٰت)۔
اللّٰہ تعالٰی ہمیں بھی ان ایام میں بہترین طریقے سے عبادات بجال لانے اور ابراہیم علیہ السلام سےوابستہ خصوصی یادوں کو اپنا ایمان و عمل بنانے کی توفیق نصیب فرمائے کہ خواہشات کے حصار نے ہمیں اپنے جالوں میں پھنسا رکھا ہے…
آج ہم منزل سے بہت دور بھٹکتے مسافر اور مقصدِ حیات سے کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں…
امامت کے منصب پر فائز ہونے کے لئی کن راستوں پر سے ہو کر گزرنا ہوتا ہے؟سیرتِ ابراہیم اس کی بہتر راہ نما ہے…!!!
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے…
صنم کدہ ہے جہاں،لا الہ الا اللّٰہ…
یہ مال و دولت،دنیا یہ رشتۂ پیوند…
بتانِ وہم و گماں،لا الہ الا اللّٰہ…!!!
=============================
[جویریات ادبیات]۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

Shares: