معروف مصنف خلیل الرحمن نے کیسے طے کیا خلیل الرحمن قمر تک کا سفر ?

0
46

پاکستان کے معروف اور نامور مصنف و شاعر خلیل الرحمان نے اپنے ایک انٹر ویو میں بتایا کہ جب انہوں نے پہلی مرتبہ ہاتھ میں قلم پکڑا تھا تو میں جانتا تھا کہ میں مصنف بنوں گا

پاکستان کے مشہور ڈرامہ سیریل سے شہرت پانے والے مصنف خلیل الرحمان سے جب ایک نجی چینل کی طرف سے لئے گئے انٹر ویو کے دوران پوچھا گیا کہ آپ صف اول کے ڈرامہ نگار ہیں وہ کیا فارمولا ہے آپ کے پاس جس نے آپ کو نامور بنا دیا تو اس کے جواب دیتے ہوئے خلیل الرحمان نے کہا جب میں نے پہلی مرتبہ قلم پکڑی تھی میں تب ہی جان گیا تھا کہ میں مصنف بنوں گا اور مجھے ایک خود آگہی کے طور پر پیدا کیا گیا ہے

انہوں نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کہ یہ ان کے لئے قطعاً وہم نہیں تھا بلکہ یہ ایک اتنا پکا یقین تھا جو کبھی ٹوٹ نہیں پایا

انہوں نے کہا کہ میں شروع ہی سے بہت باریک بین تھا اور یہ سب انہیں قدرت کی طرف سے عطا کی گیا تھا اور میرے سارے تجربے اور آبزرویشنز میرے اندر کہیں محفوظ ہو جاتے ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ چھٹی جماعت سے لکھ رہے ہیں اور گیارھویں تک وہ مسلسل لکھتے رہے اور بے تحاشا لکھا

خلیل الرحمن نے انٹرویو کے دوران انکشاف کیا کہ ان کے والد صاحب ان کے لکھنے کے خلاف تھے اور منع کیا کرتے تھے

انہوں نے کہا یہ بڑے حیران کن بات تھی میرے لیکن اس کا ادراک مجھے بعد میں ہواکہ وہ ٹھیک تھے کیونکہ ان کے ہاں رائٹرز کا کانسیپٹ
بہت بُرا تھا انہوں نے بتایا کہ میں ایک اچھا طالبعلم تھا اور میں غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا تو میرے والد چاہتے تھے میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا افسر بن جاؤں اور فیملی کی غربت ختم کر دوں خلیل الرحمان نے کہا کہ میرے والد کی اس سرزنش نے ان کے اندر ایک جذبہ پیدا کر دیا جس کی وجہ سے انہوں نے زیادہ بہتر لکھا

اپنے نام کے ساتھ قمر لگانے کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میں سب سے پہلے شاعر تھا پھر میں نامہ نگار ہوں لیکن اس میں مہینے ڈیڑھ کا ہی فرق ہے لیکن سب سے پہلے انہوں نے شیر لکھا انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کو لفظوں کا الہام ہوتا ہےمصنف کے مطابق آمد کو معتبر لفظوں میں الہام کہتےہیں

انہوں نے کہا کہ میں قصداً بیٹھ کر نہیں لکھ سکتا بلکہ مجھے الہام ہوتا ہے اور یہاں تک کہ میں بیس پچیس لوگوں میں بیٹھ کر لکھ سکتا ہوں اور اس دوران جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو مجھے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ میرے آس پاس بیس پچیس لوگ بیٹھے ہوئے ہیں

جب ان سے پوچھا گیا کہ جب انہیں الہام ہوتا تب فوراً ہی لکھنا شروع کر دیتے ہیں یا بعد میں اس کے جواب میں مصنف نے کہا میں فوراً لکھنا شروع کر دیتا ہوں بعض اوقات تو اتنی تیزی سے آمد ہوتی ہے کہ لفظ لکھنے سے رہ جاتے ہیں بعض میں ان کو ریکور کر کے لکھتا ہوں کہ یہاں یہ لفاظ تھا

آئیڈیا تو کہیں ان کے اندر پنپ رہا ہوتا ہے آبزرویشن آئیڈیاز ہی ہوتے ہیں یہ ڈائیلاگز جو ہوتے ہیں اللہ تعالی نے ان پر خاص مہربانی کی ہےیہ مجھ پر اترتے ہیں زیادہ تر اصلی شکل میں کہیں رعایت لفظ استعمال کرنی پڑتی ہے

اقبال اور غالب کی محنت سے الفاظ کو چست بنا کر پیش کرنے پر خلیل الرحمن نے کہا کہ میرے ہاں سب چست ہی آتا ہے لیکن میں اقبال اور غالب جیسے شاعروں سے متھا نہیں لگا سکتا لیکن میں اب کیا کہوں اپنے بارے میں میرے مرنے کے بعد مانیں گے اگر مانیں گے تو

واضح رہے خلیل الرحمن ایم بی اے میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد ایک بینکر سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا انہوں نے بتایا کہ میں ایک مشہور بینکر ہوں جب جس لیول پر بھی گیا انہوں نے کہا کہ میں وائس پریذیڈنٹ تھا بینک آف پنجاب تھا اور اپنے کیریئر کا آغاز نیشنل بینک آف پاکستا ن سے کیا

انگریزی بولنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں لیاقت تو انگریزی کو سمجھا جاتا ہے اگر آپ کو اچھی انگریزی بولنی نہیں آتی حالاناکہ آپ جتنے مرضی ذہین ہوں آپ کو کچھ سمجھا نہیں جاتا اور یہ بالکل غلط اور گھٹیا رویہ ہے اسی چیز نے ہمیں وہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں سے ہم ترقی کا سفر شروع نہیں کر پا رہے قمر صاحب نے کہا کہ انسان جسم کی غلامی سے تو آزاد ہو جاتا ہے لیکن زبان کی غلامی سے کبھی آزاد نہیں ہوتا اور وہ بے شرمی کی زندگی گزارتی ہیں وہ قومیں جو دوسروں کی زبان بول کر اپنی زبان کو پیروں تلے روندتی رہتی ہیں

انہوں نے اپنی مادری زبان پنجابی کے بارے بات کرتے ہو ئے کہا کہ میں پنجابی اردو سے زیادہ تیز لکھتا ہوں‌ اور میری پہلی پنجابی فلم تھی نکی جئی ہاں جس نے نیشنل ایوارڈ لیا تھا اور اردو میں میں نے زیادہ کورس کی کتاب پڑی ہے اور اس کے علاوہ میں اچھے لوگوں کو یا ٹی وی میں لوگوں کو اردو بولتے ہوئے غور سے سنا کرتا تھا میں ایک بہت تھا سامع تھا ایک زمانے میں میں بس لوگوں کو سنتا تھا اچھا بولنے والوں کو اچھی بات کرنے والوں کو بہت غور سے سنا کرتا تھا

انہوں نے بتایا ڈاکٹر احراز نقوی کی اردو سے انہیں عشق ہق گیا تھا بلکہ ان کے لب و لہن کی وجہ سے ان سے عشق ہو گیا تھا اور وہ بھی اتبی ہی میرے سے محبت کرتے تھے اور ان کے نام پر میں نے اپنے چھوٹے بھائی کا نام احراز علی رکھا تھا

انہوں نے کہا جب وہ فلم انڈسٹری میں آئے انہوں نے دیکھا سب سے برا سلوک رائٹرز سے کیا جارہا ہے تو میرا سب سے پہلا مقصد رائٹرز کی امیج صحیح کرنا تھی ان کو ان کی صحیح پہچان دلوانا تھی تو میں نے مصنفوں کے لئے سٹینڈ لیا اور ابھی تک لے رہا ہوں

انہوں نے رائٹرز کو عزت دلوانے اور ان کے لئے سٹینڈ لینے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ کسی کی بجی جرات نہیں تھی کہ میری لکھے ہوےئ تحریروں کو ادھر سے اُدھر کر دے کا کو کی تک میں بدل دے میں اس بات پر بہت زیادہ اور سختی سے ری ایکٹ کرتا ہوں س نے ایسا کیا وہ بعد میں میرے ساتھ کام نہیں کر سکتا

انہوں نے معاوضے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستان میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے مصنف ہیں

ان کے تنازعات اور سخت اور تلخ باتوں کے بارے یں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تلخ باتیں تو شاید نہیں سخت باتیں ضرور ہیں اردو کے بارے میں تو مرتے دم تک میں چیختا رہا ہوں گا اردو کو ترقی دلوانے میں لکھنو دہلی اور بھوپال کو زیادہ کردار رہا ہے لاہور کا اتنا کردار نہی ہے لاہور میں ایک وقت تھا جب اچھی اردو بولنے کا سلسلہ رہا جو کہ ٹوٹ گیا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اردو کی لیاقت انگریزی میں چھپ گئی ہے

اردو کی تخلیقات کے بارے میں خلیل الرحمن نے باتے کرتے ہوئے بتایا کہ اردو کی اچھی تخلیقات زیادہ پنجاب سے آئی ہیں جبکہ اردو بولی زیادہ کراچی میں جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو بولنا اور ؛کھنا دو الگ چیزیں ہیں جیسے اب ہمارے پنجابی میں کام کم ہوتا ہے کیونکہ ہم نے فرض کر لیا ہے کہ پنجابی ہمیں نہیں آتی ہے اسی طرح کراچی میں بھی بہ سارے ایسے لوگ ہیں جو اردو کو اس کی صحیح ایسنس کے ساتھ نہیں بول رہے لب و لہن کا لحاظ کم رکھا جاتا ہے شاید پورے ملک میں ہی ایسا ہے

لیکن پنجاب ایک زرخیز مٹی ہے اور ہمیشہ سے رہی ہے اور جو بڑے بڑے نام ہیں وہ زیادی تر پنجاب سے ہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی اور سندھ نے بھی بہت بڑے بڑے آدمی پیدا کئے ہیں لیکن جو سب سے بڑا آدمی ہے وہ پنجاب میں پیدا ہوا اس مٹی نے بڑے نامور نامی گرامی سپوت پیدا کئے ہیں جیسے علامہ اقبال فیض احمد فیض وغیرہ

انہوں نے کہا کہ کہیں اردو سیکھنے میں میرا کسی سے کہیں تعلق ہے تو آغا حشر کاشمیری ہیں ان کے ہاں منظوم تھا ڈرامہ اور میرے ہاں جو ڈائلاگز ہیں وہ اس طرح ہوتے ہیں جیسے شاعرے لکھی ہوئی ہے میں کاشمیری سے بہت محبت ہے مجھے

انٹرویو میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے خلیل الرحمن نے کہا کہ میں خود پسند نہیں ہوں اور میں اپنے آپ پر میں بالکل بھی تنقی نہیں کرتا کیونکہ خلیل الرحمن قمر جس آدمی کا نام ہے میں اس کی میں بھی قدر کرتا ہوں وہ نوازا ہو آدمی ہے اور یہ بالکل بھی خود پسندی نہیں ہے مین اپنی آپ کو بالکل بھی خود پسند نہیں کہتا خلیل الرحمن قمر کو جو عطا ہو رہی ہے اس کو عشق ہوں انہوں نے کہا کہ اس کو وقت طے کرے گا جب آپ دسورے رائٹرز ے بارے میں یورپ کے امریکہ رائٹرز کے بارے میں لکھتے ہیں تو کسی دن بیٹھ کر میرے ہاں بھی خلیل الرحمن قمر کو لکھا جائے گا تو پتہچلے گا کہ خلیل الرحمن اور خلیل الرحمن قمر دو الگ لوگ تھے

انہوں نے کہا خلیل الرحمن اور خلیل الرحمن قمر دو الگ لوگ ہیں میرے اوپر خلیل الرحمن قمر وارد ہوتا ہے جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں ورنہ تو ایک عام آدمی ہے خلیل الرحمن انہوں نے کہا میں مکالموں سے اور بئی بنتوں سے پہچانا جاؤں گا کل آپ کے بچوں نے پڑھنا ہے خلیل الرحمن قمر کا ڈرامہ آپ کے پاس چارہ ہی کوئی نہیں ہے وہ خدا کی ودیت کردہ چیز ہے اس سے آپ نکل ہی نہیں سکتے باہر

انہوں نے عورت کی آزدی سے اختلاف کے بارے میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ مجھے عورت کی آزدی سے کوئی اختلاف نہیں ہے میں خود بہت بڑو داعی ہوں عورت کی آزادی کا لیکن میں مادر پدر آزاد آزادی ے لئے کسی صورت میں سفارش نہیں کر سکتا انہوں نے کہا کہ میں عورت کو بہت سالوں سے جاننے کی کوشش کرتا رہا ہوں چونکہ میں لکھتا ہی عورت کو ہوں کیونکہ میرا ماننا ہے کہ معاشرہ چلانے میں مرد کا کردار بہت تھوڑا ہے اور عورت کا کردار معاشرہ چلانے میں بہت زیادہ ہے ہمارا انحصار عورت پر زیادہ ہے عورت کا رتبہ زیادہ ہے مرد کی نسبت کیونکہ بچے کی شناخت عروت بتاتی ہے مرد نہیں بتاتا

خلیل الرحمن کے مطابق اگر عورت کے اندر وفا اور حیا نہیں ہےتو میں خوبصورت نہیں مانتا اسے اور اگر مرد کے اندر غیرت نہیں ہےتو میں اسے مرد نہیں مانتا

انہوں ے کہا میرا اعتراض عورت سے بس یہی ہے کہ آپ اپنے حقوق کی بات کریں مردوں کے حقوق میں سے حصہ نہ مانگیں

فنکاروں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ جو ڈانٹ ڈپٹ ہے یہ خدانخواستہ انا کی ڈانٹ ڈپٹ نہیں ہے ان کو سکھانے کے لئے ہے کیونکہ میں کئی لوگوں سے تجربے میں اور کئی سے عمر میں بڑا ہوں اگر وہ اپنے کام کو کام سمھتے ہوئے ایمانداری سے کریں تو میں ان کے پیروں میں بیٹھتا ہوں لیکن جو لوگ اپنے کام سے ایماندار نہیں کرت ان کے ساتھ پھر میں صحیح نہیں ہوں

اپنے آبائی محلے کی بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کا اصلی عشق کیا ہےتو وہ شاد باد کی مٹی سے ہے بہت پہلے سے میں کہا جرتا ہوں کہ میں کہیں بھی ہوں مجھے دفن شاد باد کی مٹی میں کیا جائے

خلیل الرحمن نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں آنکھیں اٹریکٹ کرتی ہیں آنکھوں میں ہی تو ایکسپریشنز ہوتے ہیں آنکھیں ہی تو بات کرتی ہیں انہوں نے کہا کہ جس فیلڈ میں وہ ہیں اس میں ہم لوگوں پرالزام تو لگتے رہتے ہیں افئیرز وغیرہ سےمتعلق لیکن اس چیز سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا

لاہور کو لالی وڈ کا مرکز مانا جاتا لیکن اس کے زوال کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کو ان کی اپنی نظر کھا گئی ہے ا سکی وجہ جہاں کونٹینٹ کو کمزور سمجھا جاتا ہے تو وہاں پر پروڈکشن کوئی ویلیو نہیں رکھتی انہوں نے کہا اس کا مطلب یہ نہیں کہ رائٹرز اچھے نہیں تھے مسئلہ ان کا کم۔معاوضہ تھا

انہوں نے کہا کہ ایکٹر کا چہرہ دیکھانے سے آپ کو کامیابی تو مل جائے گی لیکن ویخہاں آپ کسی غلط راست پر چل نکلتے ہیں اور بھٹک رہے ہوتے ہیں انہوں نے کہا لاہور لالی وڈ کا ایک فطری ہب ہے جو کبھی نہیں مٹ سکتا

اپنے مستقبل میں کام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ شاید زیادہ کام۔میرا جیو کی طرف چلا جائے گا وہ چار ڈرامے جیو کے ساتھ اس سال عبداللہ صاحب اور اسد قریشی کے ساتھ کرنے کا فائنل کر چکے ہیں

سیاست کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ۔سیاست میں آنے کا کبھی ارادہ نہیں رکھتے انہیں کسی سے اختلاف نہیں لیکن اگر آپ کسی بات پر ببانگ دہل۔اعلان کرتے ہیں یہ ہو جائےگا لیکن باہر آکر کہتے ہیں کہ۔یہ سیاسی بیان تھا تو یہ جھوٹ بولنا میرے ہاں جائز نہیں ہے میں کون ہوتا ہوں میرے مذہب میں جائز نہیں ہے

ان کی ساری کہانیاں عورت کے گرد گھومتی ہیں اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں کوئی ایک خاص عورت ماں یا بیوی بلکل میرا تخیل نہیں ہے میری آئیڈیل۔عورت باوفا اور باحیا ہے اور جو بے حیا عورت ہو میں اسے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتا میں اس کو ولن بھی نہیں مانتا میرے نزدیک عورت ہی نہیں ہے وہ اورمیں اس بات پر یقین رکھتاہوں کہ عورت فطری طور پر۔باوفا ہوتی ہے اور جو بے وفا ہوتی ہے وہ فطرتاً عورت نہیں ہوتی اور ایسی عورت ان کے ڈرامے میں نیگیٹیو جگہ پاتی ہیں اور انھیں دکھ ہوتا ہے جب وہ عورت کو نیگیٹیو لکھتے ہیں انہوں نے کہا میں عورت کی سب سے زیادہ عزت کرتا ہوں عورت کی آزادی کا سب سے بڑا داعی ہوں مرد کو تو میں کسی کھاتے لاتا ہی نہیں ہوں اگر مرد چیٹ کرےتو میں اسے بھی دو ٹکے کا بولتا ہوں بلکہ اسےتو دو ٹکے کا بھی نہیں بولتا اسے میں مانتا ہی نہیں اس سے کوئی توقع ہی نہیں ہے میری

Leave a reply