مزید دیکھیں

مقبول

چیمپئنز ٹرافی: ویرات کوہلی پریکٹس سیشن میں زخمی

دبئی: آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل سے...

کراچی میں ڈمپر نے موٹرسائیکل سوار تین سگے بھائیوں کو روند ڈالا

کراچی میں موچکوکے علاقے میں تیز رفتار ڈمپر موٹر...

ننکانہ: بچیکی خواتین کالج میں حراسانی انکوائری، انصاف جیتے گا یا اثر و رسوخ؟

ننکانہ صاحب،باغی ٹی وی(نامہ نگاراحسان اللہ ایاز) گورنمنٹ ایسوسی...

اوکاڑہ : قصاب مافیا کا راج، بیمار جانوروں کا گوشت فروخت

اوکاڑہ (نامہ نگار،ملک ظفر) اوکاڑہ میں قصاب مافیا بے...

خلیل جبران لبنانی نژاد امریکی فنکار، شاعر اور مصنف

جبران خلیل جبران جو لبنانی نژاد امریکی فنکار، شاعر اور مصنف تھے،خلیل جبران جدید لبنان کے شہر بشاری میں پیدا ہوئے جو ان کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا، وہ نوجوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا ہجرت کر گئے اور وہاں فنون لطیفہ کی تعلیم کے بعد اپنا ادبی سفر شروع کیا۔ جبران خلیل جبران اپنی کتاب The Prophet کی وجہ سے عالمی طور پر مشہور ہوئے۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی اور یہ انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی یہ فلسفیانہ مضامین کا ایک مجموعہ تھا، گو اس پر کڑی تنقید کی گئی مگر پھر بھی یہ کتاب نہایت مشہور گردانی گئی، بعد ازاں 60ء کی دہائی میں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شاعری کی کتاب بن گئی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جبران ولیم شیکسپئیر اور لاؤ تاز کے بعد تاریخ میں تیسرے سب زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں

اسے "غلیظ” کہا جاتا تھا کیونکہ اس کی جلد سیاہ تھی، ذۃین نہیں تھا کیونکہ وہ بمشکل انگریزی بول سکتا تھا۔ جب وہ اس ملک میں پہنچے تو انہیں تارکین وطن کے لیے ایک خصوصی کلاس میں رکھا گیا لیکن، اس کے چند اساتذہ نے اس انداز میں کچھ دیکھا جس میں اس نے اپنے آپ کو ظاہر کیا، اپنی ڈرائنگ کے ذریعے، دنیا کے بارے میں اپنے نظریہ کے ذریعے وہ جلد ہی اپنی نئی زبان پر عبور حاصل کر لے گا۔

جبران مسیحی اکثریتی شہر بشاری میں پیدا ہوئے، جبران کے والد ایک مسیحی پادری تھےجبکہ جبران کی ماں کملہ کی عمر 30 سال تھی جب جبران کی پیدائش ہوئی، والد جن کو خلیل کے نام سے جانا جاتا ہے کملہ کے تیسرے شوہر تھے غربت کی وجہ سے جبران نے ابتدائی اسکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن پادریوں کے پاس انھوں نے انجیل پڑھی، انھوں نے عربی اور شامی زبان میں انجیل کا مطالعہ کیا اور تفسیر پڑھی۔

جبران کے والد پہلے مقامی طور پر نوکری بھی کرتے تھے، لیکن بے تحاشہ جوا کھیلنے کی وجہ سے قرض دار ہوئے اور پھر سلطنت عثمانیہ کی ریاست کی جانب سے مقامی طور پر انتظامی امور کی نوکری کی اس زمانے میں جس انتظامی عہدے پر وہ فائز ہوئے وہ ایک دستے کے سپہ سالار کی تھی، جسے جنگجو سردار بھی کہا جاتا تھا۔

1891ء یا اسی دور میں جبران کے والد پر عوامی شکایات کا انبار لگ گیا اور ریاست کو انھیں معطل کرنا پڑا اور ساتھ ہی ان کی اپنے عملے سمیت احتسابی عمل سے گزرنا پڑا جبران کے والد قید کر لیے گئےاور ان کی خاندانی جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔ اسی وجہ سے کملہ اور جبران نے امریکا ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا جہاں کملہ کے بھائی رہائش پزیر تھے۔گو جبران کے والد کو 1894ء میں رہا کر دیا گیا مگر کملہ نے جانے کا فیصلہ ترک نہ کیا اور 25 جون، 1895ء کو خلیل، اپنی بہنوں ماریانا اور سلطانہ، اپنے بھائی پیٹر اور جبران سمیت نیویارک ہجرت کی اس کی ماں نے اپنے خاندان کے لیے بہتر زندگی کی تلاش میں امریکہ لے جانے کا ایک مشکل فیصلہ کیا تھا –

جبران کا خاندان بوسٹن کے جنوبی حصے میں رہائش پزیر ہوا، اس حصے میں اس وقت شامی اور لبنانی نژاد امریکیوں کی کثیر تعداد رہائش پزیر تھی امریکا میں جبران کو اسکول میں داخل کروایا گیا اور اسکول کے رجسٹر میں ان کا نام غلطی سے خلیل جبران درج ہوا اور پھر یہی نام ان کا سرکاری کاغذات میں منتقل ہوتا رہا،ویسے ان کا نام جبران خلیل جبران تھا-

جبران کی والدہ نے کپڑے کی سلائی کا کام شروع کیا اور لیس اور لینن کا کام کر کے گھر گھر جا کر بیچنا شروع کر دیا جبران نے 30 ستمبر 1895ء کو اسکول کی تعلیم شروع کی اسکول کی انتظامیہ نے انھیں ہجرت کرکے آنے والے طالب علموں کی مخصوص جماعت میں داخل کیا تاکہ وہ انگریزی زبان سیکھ سکیں اسکول کے ساتھ ساتھ جبران نے اپنے گھر کے پاس ہی ایک فنون لطیفہ کے اسکول میں بھی داخلہ لے لیا۔

فنون لطیفہ کے اسکول میں ان کے استاد نے انھیں بوسٹن کے مشہور فنکار، مصور اور ناشر فریڈ ہالینڈ ڈے سے متعارف کروایا،جنھوں نے جبران کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا اور جبران کے فن میں حوصلہ افزائی کی 1898ء میں پہلی بار جبران کی بنائی ہوئے مصوری کے نمونے ایک کتاب کے سرورق کے لیے استعمال کیے گئے۔

جبران کی ماں اور ان کے بڑے بھائی پیٹر چاہتے تھے کہ جبران اپنی لبنانی ثقافت کا پرچار کرے اور مغربی ثقافت جس سے جبران متاثر تھے کو ترک کر دے، جبران کی مغربی ثقافت سے متاثر ہونے کی وجہ سے پندرہ سال کی عمر میں جبران کو واپس لبنان بجھوا دیا گیا جہاں انھوں نے مسیحی مارونات کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی اور بیروت میں اعلیٰ تعلیم کے لیے منتقل ہوئے۔ بیروت میں اپنے ایک ہم جماعت کے ہمراہ ایک ادبی رسالے کا اجرا کیا اور اپنے تعلیمی ادارے میں “کالج کے شاعر“ کے طور پر مشہور ہوئے۔ یہاں وہ کئی سال تک مقیم رہے اور 1902ء میں بوسٹن واپس چلے گئےان کی بوسٹن واپسی سے تقریباً دو ہفتے قبل ان کی بہن سلطانہ تپ دق میں مبتلا ہو کر چودہ سال کی عمر میں وفات پاگئی اور اس کے اگلے ہی سال ان کے بھائی پیٹر تپ دق کی وجہ سے اور ماں کینسر میں مبتلا ہو کر فوت ہوئیں۔ جبران کی بہن ماریانہ نے جبران کی دیکھ بال کی اور ماریانہ ایک درزی کے پاس نوکری کرتی رہیں-

انہوں نے لکھا کہ مصیبت سے مضبوط ترین روحیں نکلی ہیں، سب سے بڑے کردار داغوں سے بھرے ہوئے ہیں،وہ 6 جنوری 1883 کو آج کے لبنان میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا،وہ محبت ،امن اور افہام و تفہیم پر یقین پر یقین رکھتا تھا،ان کا نام خلیل جبران تھا، اور وہ بنیادی طور پر اپنی کتاب "دی پرافٹ” کے لیے جانا جاتا ہے-

دنیا بھر کی 108 زبانوں میں شائع ہونے والے، دی پرافٹ ” کے حوالے شادیوں، سیاسی تقاریر اور جنازوں میں نقل کیے جاتے ہیں، جان ایف کینیڈی، اندرا گاندھی، ایلوس پریسلے، جان لینن اور ڈیوڈ بووی جیسی متاثر کن بااثر شخصیات بھی ان کی مداح ہیں، وہ بے حد بے باک تھے، منافقت اور بدعنوانی کے زدید خلاف تھے ان کی کتابیں بیروت میں جلا دی گئیں اور امریکہ میں اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں –

جبران اپنے خاندان کے واحد فرد تھے جنہوں نے علمی تعلیم حاصل کی۔ اس کی بہنوں کو اسکول میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، بنیادی طور پر مشرق وسطیٰ کی روایات کے ساتھ ساتھ مالی مشکلات کی وجہ سے۔ جبران، تاہم، اپنے خاندان کی خواتین، خاص طور پر اپنی والدہ کی طاقت سے متاثر تھا۔ ایک بہن، اس کی ماں اور اس کے سوتیلے بھائی کی موت کے بعد، اس کی دوسری بہن، ماریانہ جبران نے کپڑے کی دوکا پر کام کر کے انہیں اور خواد کو پالا-

اپنی والدہ کے بارے میں خلیل جبران نے لکھا کہ انسانوں کے لبوں پر سب سے خوبصورت لفظ ‘ماں’ ہے، اور سب سے خوبصورت پکار ‘میری ماں’ ہے۔ یہ امید اور پیار سے بھرا ایک لفظ ہے، دل کی گہرائیوں سے نکلنے والا ایک میٹھا اور مہربان لفظ ہے۔ ماں ہی سب کچھ ہے، وہ غم میں ہماری تسلی، غم میں ہماری امید اور کمزوری میں ہماری طاقت ہے۔ محبت، رحم، ہمدردی اور معافی کا۔”

جبران بعد ازاں خواتین کی آزادی اور تعلیم کی وجہ بنےاس کا ماننا تھا کہ "دوسروں کے حقوق کی حفاظت انسان کا سب سے عظیم اور خوبصورت انجام ہے،نئے تارکین وطن کے لیے ایک نظم میں، انہوں نے لکھا کہ ، "مجھے یقین ہے کہ آپ اس عظیم قوم کے بانیوں سے کہہ سکتے ہیں، ‘میں حاضر ہوں، ایک نوجوان، ایک جوان درخت، جس کی جڑیں لبنان کی پہاڑیوں سے اکھیڑ دی گئیں۔ یہاں بہت گہرائی سے جڑیں ہیں۔ اور میں نتیجہ خیز ہوں گا۔”

انہوں نے اپنی کتان "دی پرافٹ” میں لکھا کہ آپ اتحاد میں خالی جگہیں ہونے دیں، اور آسمان کی ہوائیں آپ کے درمیان رقص کریں۔ ایک دوسرے سے محبت کرو لیکن محبت کا بندھن نہ بناؤ: اسے اپنی روحوں کے ساحلوں کے درمیان ایک چلتا ہوا سمندر بننے دو۔ ایک دوسرے کا پیالہ بھرو لیکن ایک پیالہ سے نہ پیو۔ اپنی روٹی ایک دوسرے کو دو لیکن ایک ہی روٹی سے مت کھاؤ۔ ایک ساتھ گاؤ اور رقص کرو اور خوش رہو، لیکن تم میں سے ہر ایک کو تنہا رہنے دو، جیسے کہ ایک تار کی تاریں ایک ہی موسیقی کے ساتھ کانپتی ہیں۔ اپنے دل دو، لیکن ایک دوسرے کی حفاظت میں نہیں۔ کیونکہ صرف زندگی کا ہاتھ ہی آپ کے دلوں کو سمیٹ سکتا ہے۔ اور ایک ساتھ کھڑے ہو جاؤ، لیکن ایک دوسرے کے قریب بھی نہیں: کیونکہ ہیکل کے ستون الگ الگ کھڑے ہیں، اور بلوط کا درخت اور صنوبر ایک دوسرے کے سائے میں نہیں بڑھتے ہیں۔

جبران خلیل 10 اپریل 1931ء کو نیویارک میں وفات پا گئے۔ ان کی موت جگر کی خرابی اور تپ دق کی وجہ سے ہوئی۔ اپنی موت سے پہلے جبران نے خواہش ظاہر کی کہ انھیں لبنان میں دفن کیا جائے ان کی یہ آخری خواہش 1932ء میں پوری ہوئی جب میری ہاسکل اور جبران کی بہن ماریانہ نے لبنان میں مارسرکاس نامی خانقاہ خرید کر وہاں ان کو دفن کیا اور جبران میوزیم قائم کیا جبران کی قبر کے کتبے پر جو الفاظ کشیدہ کیے گئے وہ کچھ اس طرح ہیں، “ایک جملہ جو میں اپنی قبر کے کتبے پر دیکھنا چاہوں گا میں زندہ ہوں تمھاری طرح اور میں تمھارے ساتھ ہی کھڑا ہوں۔ اپنی آنکھیں بند کرو اور اردگرد مشاہدہ کرو، تم مجھے اپنے سامنے پاؤ گے-

جبران نے اپنے سٹوڈیو کی تمام اشیاء اور فن پارے میری ہاسکل کے نام وصیت میں سپرد کر دیے اس سٹوڈیو میں ہاسکل کو 23 سال تک اپنے اور جبران کے بیچ ہوئی خط کتابت بھی ملی، جس کے بارے پہلے ہاسکل نے یہ فیصلہ کیا کہ انھیں جلا دیا جائے، لیکن ان کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر انھیں محفوظ کر دیا گیا۔ ان خطوط کو میری ہاسکل نے اس کو لکھے گئے جبران کے خطوط سمیت شمالی کیرولائنا کی جامعہ کی لائبریری کو اپنی 1964ء میں وفات سے پہلے سپرد کر دیے۔ بعد ازاں ان خطوط کا کچھ مواد 1972ء میں کتاب Beloved Prophet میں شائع ہوا۔