مزید دیکھیں

مقبول

خاندان پہلے سیاست بعد میں تحریر:آصف اسماعیل

اس سے پہلے کہ ہم اس بحث کو سمیٹیں کہ نواز شریف کے بعد پارٹی قیادت کو کے پاس جائے گی ہمیں چوہدری ظہور الہی کے خاندان اور ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کو سمجھنا ہو گا کیونکہ یہ دونوں خاندان ایک دوسرے سے منسلک بھی ہیں اور ایسا کرنے سے زیادہ بہتر انداز میں پتا چلے گا کہ پاکستان میں سیاسی خاندانوں میں قیادت کیسے منتقل ہوتی ہے۔

اگر چوہدری ظہور الہی کے خاندان پر نظر دوڑائی جائے تو چوہدری صاحب خود سیاست میں کافی متحرک تھے جبکہ ان کے بھائی چوہدری منظور الہی نے اپنے آپ کو کاروبار تک ہی محدود رکھا، مگر وہ اپنے بھائی کے سیاست مفادات کی حفاظت بھی کرتے تھے ان کی مدد بھی۔
چوہدری ظہور الہی کی زندگی میں ہی اپنے بیٹے چوہدری شجاعت کو قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کروایا، اس وقت کے سیاستدانوں سے بات کی جائے تو وہ یہ بتاتے ہیں کہ گجرات میں ایک رائے تھی کہ چوہدری ظہور الہی کے بیٹے سیاست کریں گے جبکہ چوہدری ظہور الہی کے بیٹے چوہدری پرویز الہی کاروبار کا آگے لے کر جائیں گے مگر پھر انیس سو

اکیاسی میں چوہدری ظہور الہی کو الذوالفقار کی جانب سے قتل کیا گیا تو یہ ضرورت پڑی کہ مرکز کی سیاست اگر چوہدری شجاعت کریں گے تو صوبائی سیٹ پر بھی کسی ایسے شخص کو سامنے لانا چاہیے جو خاندان سے ہو اور جو خاندان سے مفادات کی حفاظت بھی کرے۔ اسی حوالے سے جب میری ترجمان پرویز الہی زین علی بھٹی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ "چوہدری ظہور الہی کی شہادت کے فوری بعد قیادت کا ایک خلا پیدا ہو گیا کیونکہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ انہیں شہید کر دیا جائے گا تو اس وقت خاندان کے اندر اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ چوہدری شجاعت مرکز کی سیاست کریں گے اور چوہدری پرویز الہی جو کہ چوہدری ظہور الہی کے بھتیجے بھی ہیں انہیں پنجاب کے معاملات دیکھنے پر معمور کیا جائے گا، جہاں تک سیاسی کھینچا تانی کی بات ہے تو وہ اسی وجہ سے نہیں ہوئی کہ دونوں کو اپنے رولز کا پتا چل گیا”۔ چوہدری ظہور الہی کی زندگی میں ہی چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز دونوں ہی متحرک ہو گئے تھے کیونکہ پی این اے کی تحریک میں دونوں سے طالبعلم سیاست شروع کر دی تھی۔

اسی طرح اگر ہم بھٹو خاندان پر نظر دوڑائی تو کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بھائی نہیں تھے تو قیادت کا جھگڑا ان کے بچوں میں ہونا تھا جو بعد میں ہوا بھی مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی زندگی میں ہی بے نظیر بھٹو کی گرومنگ شروع کر دی تھی جیسا کہ آپ سب نے دیکھا ہو گا کہ شملہ معاہدے کے وقت بے نظیر بھٹو اس دورے میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھیں اور انہیں ہی سیاسی جانشین تصور کیا جاتا تھا مگر خاندان کے اندر لوگوں کا خیال تھا کہ جانشین مرتضی بھٹو کو ہونا چاہئے لیکن اس خیال کو زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی اور بے نظیر بھٹو ہی اصل وارث بنیں۔

اب اگر ہم ان دونوں خاندانوں کو سامنے رکھیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ نواز شریف کا سیاسی وارث کون ہو گا۔ 1999ء کے مارشل لاء کے فوری بعد سے لے کر دو ہزار سات تک سب کا ماننا یہی تھا کہ حمزہ شہباز ہی نواز شریف کے سیاسی وارث ہوں گی اور یہ تاثر دو ہزار سولہ تک کافی حد تک درست بھی مانا جاتا ہے کیونکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار اٹھارہ کے دوران حمزہ

شہباز پنجاب میں ڈپٹی وزیراعلی کے طورپر متحرک رہے۔ مرکز کی سیاست نواز شریف کے ہاتھ میں تھی جبکہ مریم نواز ان کے ساتھ میٹنگ اور بیرونی دوروں پر ہوتی تھیں اور پنجاب کے انتظامی معاملات شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ہاتھ میں تھے۔ میری اپنی رائے میں خاندان میں خاموش مفاہمت اب بھی برقرار ہے مگر اب اس میں تھوڑی پیچیدگی آ گئی ہے کیونکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پانامہ کیسز کے دوران اس طرح سے متحرک نہیں ہوئے اور نہ ہی دونوں نے بیانات دیئے جیسے کھل کر مریم نواز یا نواز شریف سامنے آئے۔ اب پارٹی میں دو گروپ ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن نواز شریف کے منظر سے ہٹنے کے بعد سامنے آئیں گے۔ ایک گروپ کا ماننا یہ ہے کہ جس کی دھاک پنجاب پر ہوتی ہے وہی مرکز میں حکومت بناتا ہے جبکہ دوسرے گروپ کا ماننا ہے کہ ووٹ نواز شریف کا ہے، مریم نواز اور نواز شریف پر جب مشکل وقت تھا تو شہباز شریف اور ان کے بیٹے خاموش تھے تو قیادت مریم نواز کے پاس ہی جانی چاہیے۔

اب اگر تجزیہ کیا جائے تو جیسے چوہدری خاندان میں اس بات پر اتفاق تھا کہ مرکز کی سیاست چوہدری شجاعت کریں گے اور صوبے کی سیاست چوہدری پرویز الہی ویسے ہی نواز شریف کا سیاسی وارث مرکز میں مریم نواز کی صورت میں سامنے آئے گا اور صوبے میں حمزہ شہباز کی صورت یہاں تک شہباز شریف کا تعلق ہے تو ان کا کردار بالکل اسی طرح کا ہو گا جیسا اس وقت نواز شریف کا ہے، کیونکہ جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر بھٹو کی گرومنگ اپنی زندگی میں ہی شروع کر دی تھی تو یہ بات سب کو معلوم تھی کہ بے نظیر بھٹو ہی سیاسی جانشین ہوں گی ویسے ہی مریم نواز کا پلڑا اس وقت حمزہ شہباز پر کافی بھاری ہے۔ ہمیں لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں کہ حمزہ شہباز کی نسبت مریم نواز کی جدوجہد کم ہے مگر مریم نواز حمزہ شہباز کے مقابلے میں "کراوڈ پلر”ہیں۔ جہاں تک جماعت یا خاندان میں لڑائی کی بات ہے تو میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو گا کیونکہ جس طرح مافیاز میں "خاندان پہلے اور کاروبار بعد میں” آتا ہے 2یسے ہی سیاسی خاندانوں میں ایک خاموش مفاہمت ہوتی ہے کہ "خاندان پہلے آتا ہے اور سیاست بعد میں” آتی ہے۔ ہم نے ماضی میں تو یہی دیکھا اب مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے۔