خواہش تحریر : اے ار کے

0
92

خواہش سے مراد کسی مادّی شے یا
مرتبہ و مقام جسے پانےکیلیے بندہ ( مومن) ہر قانونی، غیر قانونی آئینی و غیر آئینی اور شرعی و غیر شرعی ( یعنی قانون ، آئین و دین کے متعین کردہ حدود) کو پھلانگتا ہے۔
خواہشات کی تکمیل انسان کو خوشی اور تسکین دیتی ہے۔
عقل و منطق کے برعکس ، اپنی خواہشات سے والہانہ محبت کے نتیجے میں انسان معاشرے میں بھی خوار و ذلیل (ریاستی مجرم)ہوجاتا ہے۔ اور ایمان ( شرعی لحاظ سے )بھی خطرے میں پڑھ جاتا ہے۔
انسانی خواہشات انسانی ضروریات کی پیداوار ہیں۔
انسان فطرتاً خواہشات کے اگے ڈھیر ہوتا ہے۔
دراصل نفس ہی انسان میں خواہشات پیدا کرتا ہے اور اسی نفس ہی کے ذریعےانسان خواہشات کا غلام بنتا ہے ۔
دنیا کی رنگینیوں میں ایسی کشش و جاذبیت موجود ہے جو بنی نوع انسان کو زیر کرنے اور اسے اپنی طرف راغب کرنے کیلیے کافی ہے۔
اور فطرت انسانی میں بھی ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو دنیا کی کشش سے میل کھاتے ہیں۔
"” اسلام اور خواہشات "”
خواہش اور ضرورت دو الگ چیزیں ہیں۔
بھوک اگر ضرورت ہے تو ذائقہ خواہش۔
محبت اگر ضرورت ہے تو قربت تمنا۔
خواہشوں کا سفر دراصل خود شناسی سے
شروع ہوتا ہے۔اگر احتیاط سے کام نا لیا جائے اوراسلام کے وضع کردہ حدود و قیود سے تجاوز ہوتی ہے تویہ خود پرستی کی اس انتہا تک پہنچ جاتاہے جہاں انسان کی جھولی میں سوائے نقصان کے کچھ نہیں رہتا۔
پس۔۔۔! جس نے خود کو جانا اس نے ربّ کو جانا۔
اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے- اسلام کے معنی تابع ہونا ہے یعنی خود کو خدا کا تابعدار و فرمانبردار بنانا ہے۔ الله کے احکامات سے دور ہو کر انسان گمراہ اور باغی بن جاتا ہے ۔ 
ہر مومن ، ہر وقت خدا کو حاضر سمجھتا ہے۔ لہٰذا ﷲ کے احکام کی پیروی کرنے والا مسلمان ہے اور نفس کی پیروی کرنے والا شیطان کے راستہ پر نکل پڑتا ہے۔
نفس کا تابع قیامت کی مطلق پروا نہیں کرتا۔
نبی پاک ﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا مومن کیلیے قید خانہ ہے
 کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ 
کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمّہ لے سکتے ہو؟
کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سُنتے اور سمجھتے ہیں؟
یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ  اُن سے بھی گئے گُزرے۔ 
(القُرآن ، سورت الفرقان ایت نمبر 43 )
انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کے ذریعے اشرف المخلوقات بنا کر ،فرشتوں اور تمام مخلوقات پرفوقیت دے کرافضل بنایا ِاِنسان کو
"”لَقَد خلقنا الا نسان فی احسن تقویم””
کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا کسی بھی دوسری مخلوق کے لئے اللہ تعالیٰ نے یوں نہیں فرمایا۔
اب چونکہ نفس ہی دراصل انسانوں میں خواہشات پیدا کرتا ہے اور اِسی نفس ہی کے ذریعے ہم خواہشات کے غلام بنتے ہیں اور ہماری نفسی خواہشات ہی ہمیں تباہی کی طرف لے جاتی ہیں ۔ انسان کی سب سے بڑی دشمن اُس کی خواہشات ہوتی ہیں ۔ حضور اقدسﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جو کچھ سابق اُمتوں نے کیا ہو گا میری اُمت میں بھی وہ برائیاں ضرور ظاہر ہو نگی ۔
اللہ تبارک تعالیٰ قران میں فرماتے ہیں
بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں، ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔
 [قرآن ، سورت الانعام ، آیت نمبر 119​]
ہم مسلمان ہیں اور کلمہ پڑھنے کے بعد ہماری تمام خواہشات ایک خاص حدود میں آکر قید ہو جاتی ہیں۔نفس کی ہر خواہش کا اُلٹا کرنا ہی دراصل تقویٰ ہے۔
آج پوری دنیا میں سب سے زیاہ خواہشات کے شکار ہم مسلمان ہو رہے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے لیے تو یہ دنیا قید خانہ ( جیل ) کی طرح ہے اور ہم نے زندگی رسول اللہؐ کی شریعت رسول اللہ ﷺکے مطابق گُزارنی ہے ۔
تقویٰ کے معنی ایک مومن مسلمان نے اپنی روح کو پاک رکھنے کے لیے تمام برائیوں اور خواہشات سے اپنے آپ کو بچانا ہے اُن سے پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ نفس بڑا ہی ظالم ہوتا ہے ۔غصہ ، جھوٹ ، غیبت ،حسد یہ سب دراصل نفس کی اصل بیماریاں ہیں اور تمام خواہشات انہی کے کوکھ سے جنم لیتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کوعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

ٹویٹر ہینڈل : @chalakiyan

Leave a reply